پاکستان کے متعدد فنکار کامیاب زندگی گزارنے کے باوجود ڈپریشن جیسی بیماری میں مبتلا ہیں۔
اسکرین پر فن کا اظہار کرنے والے بہت سے شوبز فنکار رہن سہن اور بہترین طرز زندگی کی وجہ سے عالیشان زندگی گزارنے کی وجہ سے اپنی ایک الگ ہی پہچان رکھتے ہیں لیکن شائقین یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ایک انسان ہی ہیں اُن کی زندگی میں بھی بہت سے پریشانیاں آتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بھی ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔
گھریلو پریشانیوں اور مختلف بیماریوں کے باوجود یہ فنکار کبھی بھی اپنے چہرے پر کسی قسم کا دکھ اور تکلیف نظر آنے نہیں دیتے اور نہ ہی کبھی اپنی پریشانی سے متعلق کوئی بات بتاتے ہیں اور پریشانی کا سمندر اپنے اندر سموئے یہ فنکار بھرپور انداز سے اپنے فن کا اظہار کرتے ہیں۔ یہاں کچھ ایسے اداکاروں کا تذکرہ ہے جنہوں نے ڈپریشن میں رہنے کے بعد اس بیماری کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا اور بیماری کا ڈٹ کا سامنا کیا۔
اقراء عزیز
ڈرامہ ’سنو چندا‘ اور ’رانجھا رانجھا‘ میں بہترین اداکاری کی وجہ سے شہرت پانے والی اقراء عزیز اپنے منفرد انداز اور گفتگو کی وجہ سے اکثر خبروں کی زینت بنی رہتی ہیں حال ہی میں انہوں نے ڈپریشن جیسی بیماری سے نجات پانے کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے جتنی محبت، خلوص اور پیار اپنے دوستوں کو دیا اس کے بدلے میں اس کا ایک فیصد حصہ بھی انہیں واپس نہیں ملا، جب کسی کو میری ضرورت ہوتی تھی تو میں بڑھ چڑھ کر مدد کے لیے تیار رہتی تھی لیکن جب مجھے ضرورت ہوتی تھی تو تب کوئی بھی میرے کام نہیں آتا اور یہی وہ باتیں ہیں جوکہ مجھے ڈپریشن میں مبتلا رکھتی تھیں۔
عماد عرفانی
ماڈلنگ اور اداکاری کی وجہ سے پہچانے جانے والے عماد عرفانی ان دنوں نشر ہونے والا ڈرامہ ’چیخ‘ کی وجہ سے کافی مقبول ہو رہے ہیں جب کہ انہوں نے ثمینہ پیرزادہ کے شو میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ والد کی مسلسل پوسٹنگ کی وجہ سے زیادہ لوگوں سے گھل مل نہ سکے اور اسی وجہ سے وہ شرمیلے بچے تھے۔
عماد نے یہ بھی کہا کہ میرے اسی شرمیلے پن اور لوگوں کا سامنا نہ کرنے کی وجہ سے میرے استاد مجھے پڑھائی میں کمزور اور زندگی میں ناکام شخص قرار دیتے تھے کیوں کہ میں اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز ہی نہیں رکھ پاتا تھا اور ایسی ہی منفی اور حوصلہ شکن باتوں نے میری خود اعتمادی ختم کردی تھی اور پھر مجھے اسپورٹس کو اپنا کیرئیر بنانا پڑا۔
18 سال کی عمر میں ایک حادثے کی وجہ سے ٹخنے کا فریکچر ہوگیا تھا اور ڈاکٹروں نے مجھے 2 سے 3 سال تک اسپورٹس سے دور رہنے کا کہا جس کا یہ مطلب تھا کہ میرا اسپورٹس کا مستقبل تباہ ہونا۔ مجھے اس سوچ نے ڈپریشن میں مبتلا کردیا کہ اب میں کبھی بھی اسپورٹس مین نہیں بن پاؤں گا تب میرے اہل خانہ نے مجھے اس بیماری سے باہر نکلنے میں مدد کی۔
حنا الطاف
اداکارہ حنا الطاف نے بھی اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میری پیدائش کے وقت سے میری والدہ کچھ ذہنی تناؤ کا شکار تھیں، زندگی میں وہ کچھ پریشانیوں سے گزریں جس کی وجہ سے وہ ایک بیماری میں مبتلا تھیں اور اس بیماری کی وجہ سے اُن کو منفی خیالات زیادہ آتے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ میں شوٹنگ پر نہیں بلکہ کہیں اور جا رہی ہوں۔
حنا الطاف نے یہ بھی کہا کہ اکثر ایسا بھی ہوتا تھا کہ شوٹنگ سے واپس آنے کے بعد والدہ مجھے مارا پیٹا کرتی تھیں ایسا بھی وقت آیا تھا کہ پٹتے وقت والدہ کی چوڑی گال پر لگ گئی تھی جس کی وجہ سے کافی زخم بھی آیا تھا اور شوٹ پر لوگ زخم کی وجہ بھی پوچھتے تھے لیکن میں کچھ نہیں بتا پاتی تھی۔
میں راتوں کو سو نہیں پاتی تھی بس ڈر رہتا تھا کہ کوئی آجائے گا پھر میں نے گھر والوں کی باتوں اور سکون حاصل کرنے کے لیے الگ رہنے کا فیصلہ کیا اور اس بیماری سے نجات پائی۔