بھارت سرکار نے حکومتی سطح پر کوشش کر کے دا ڈیجیٹل انٹیلی جنس نامی کمپنی کے بینر تلے لانچ ہونے والی کشمیر انتفادا کے نام سے گیم اور ویب سائٹ بند کرا دی ہے۔
کشمیری حریت پسند رہنما برہان وانی شہید اور دختران ملت کی رہنما آسیہ اندرابی کے مشن کو فروغ دینے کے لیے کشمیری حریت پسندوں کی جدوجہد آزادی کا ڈیجیٹل میڈیا پر پرچار کرنے کیلیے کشمیر انتفادا ویب سائٹ اور گیم سے بھارت سرکار بوکھلا اٹھی اور حکومتی سطح پر کوشش کر کے دا ڈیجیٹل انٹیلی جنس نامی کمپنی کے بینر تلے لانچ ہونے والی کشمیر انتفادا کے نام سے گیم اور ویب سائٹ بند کرا دی ہے جس کے روح رواں ڈاکٹر عمیر ہارون ہیں۔
کشمیر انتفادا پلیٹ فارم اور گیم کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم ، آزادی کی جدوجہد کرنے والی تنظیموں کی کاوشوں ، ہندوستان میں بڑھتی ہوئی ریاستی دہشت گردی ، اجیت دول کا آئی ایس آئی ایس کی جانب سے کشمیر میں قدم جمانے کے لیے کی جانی والی مکارانہ سازشوں کو بے نقاب کرنا ، کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و تشدد کے مختلف طریقوں کو دنیا کے سامنے لانا اور کشمیری جدوجہد آزادی میں عورتوں کا مردوں کے شانہ بشانہ کردار کو اجاگر کرنا ہے ، گیم مختلف موبائل کے علاوہ ڈیسک ٹاپ پر بھی کھیلا جارہا تھا۔
ویب سائٹ کے بلوگرز اور ولوگرز سیکشن پر کشمیری حریت پسندوں کے ہمدردفنکار ، صحافی ، سیاستدان اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم کو بلوگ اور و لوگ کے ذریعے ڈیجیٹل میڈیا پربے نقاب کر رہے تھے۔
کشمیری نوجوانوں کو متحرک کرنے اور ڈیجیٹل محاذ پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ایک ڈیجیٹل کمیونٹی کی تخلیق اور اس کی دن بدن بڑھتی ہوئی مقبولیت سے مقبوضہ کشمیر کے عوام میں آزادی کی تڑپ کو فروغ مل رہا تھا اور یہ ڈیجیٹل سلسلہ مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھارت کے نوجوانوں میں بھی مقبولیت حاصل کرتا چلا جا رہا تھا۔
ان بلوگرز اور ولوگرز میں معروف اداکار فیصل قریشی ، لیجینڈری سنگرو کمپوزر فاخر ، معروف ٹی وی اینکر جاسمین منظور ، سنگر و ایکٹریس رابی پیر زادہ ، مشہور و معروف ٹی وی اینکر پرسن عامر لیاقت کی اہلیہ اورنامور لکھاری طوبہ عامر ، اینکر مصطفی چوہدری ، سینیٹر انوار کاکڑ ، ڈپٹی اسپیکر کے پی کے اسمبلی محمود جان ، ایم این اے رومینہ خورشید ، سابقہ سینیٹر سحر کامران ، ارم عظیم فاورقی ، مہرین ملک آدم ، فیشن ڈیزائنر سیم دادا اور لندن میں مقیم دانشور عینی بخاری ، آر جے فائزہ قریشی اور دیگر نامور شخصیات آزادی کے بارے میں اپنے افکار و نظریات پیش کر رہے تھے جس کی وجہ سے کشمیر انتفادا پلیٹ فارم مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں مقیم کشمیریوں میں بہت زیادہ مقبولیت اختیار کرتا جا رہا تھا۔
اس ڈیجیٹل پروگرام کے اجرا پر کشمیری حریت پسند رہنماؤں نے اس پروگرام کے بانی ڈاکٹر عمیر ہارون کو بھی زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا جارہا تھاکہ ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں اس انقلابی سلسلے سے مقبوضہ کشمیرمیں جاری بھارتی فوج کی وحشیانہ بربریت بے نقاب ہورہے ہیں اور بھارتی تسلط سے آزادی کے طالب کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم سے انسانی حقوق کی علمبردار عالمی تنظیموں سمیت دنیا بھر کے زندہ ضمیر لوگوں کو بروقت آگاہ کیا جا رہا تھا۔
اس ڈیجیٹل میڈیا کشمیر سروس سے اجیت دوال کے ایجنڈا کو بے نقاب کرنے کا مقصد بھی حاصل ہورہا تھا اورپوری دنیا کو باور کرایا جارہا تھا کہ کشمیر میں آئی ایس آئی انسٹال کرنے کے اصل مقاصد کیا ہیں۔
ڈیجیٹل گیم کا سرکاری گانا کشمیری اور بھارتی نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہو رہا تھا ، جس سے مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے بھارت کو اس ڈیجیٹل پروگرام سے کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو مزید تقویت ملنے کاخطرہ محسوس ہوا تو بھارتی حکومت نے یوٹیوب کی انتظامیہ کو ایک سرکاری شکایت درج کرائی کہ کشمیر انتفادا ڈیجیٹل میڈیا پروگرام سے بھارت کے لیے خطرناک صورتحال جنم لے رہی ہے اس لیے اس پروگرام کو فوری طور پر بند کر دیا جائے۔
کشمیر انتفادا میں پوری دنیا کو وادی کشمیر میں آزادی کے متوالوں کی تنظیموں کے بارے میں معلومات بھی دی جارہی تھیں اور اقوام عالم سمیت انسانی حقوق کی علمبردار بین الاقوامی تنظیموں کو بھی بھارتی فوج کی ظلم و ستم کے علاوہ کشمیریوں کے مردوں اور عورتوں کو آزادی کے لیے تڑپ اور جدوجہد میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے بارے میں لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہ کیا جارہا تھا جس سے عالمی تنظیموں کو بھی معلومات مل رہی تھیں کہ کس طرح بھارتی سرکار نے پوری وادی کشمیر میں مسلمانوں کی آواز کو دبانے کے لیے اپنے ٹارچر سیل قائم کر رکھے ہیں۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق اگرچہ بھارتی سرکار کشمیر انتفادا ڈیجیٹل پروگرام کو یوٹیوب پر بند کرانے میں وقتی طور پر کامیاب ہوگئی ہے مگر بھارت سرکار کے اس اقدام سے بھارت کا مکروہ چہرہ بھی مزید بے نقاب ہوگیا ہے اور پوری دنیا کو علم ہوگیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک بھارت میں کس طرح انسانوں سے آزادی اظہار کا حق بھی سلب کیا جارہا ہے۔