سویتا کی زندگی میں بچے کی کمی تو نہیں تھی لیکن وہ ایک بیٹی چاہتی تھیں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ ماں نہیں بن سکتی تھیں لیکن انھیں ایک بچی گود لینی تھی۔
اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اتر پردیش کی رہائشی سویتا اور ان کے شوہر ایک یتیم خانے پہنچے۔ وہاں انھیں ایک پیاری سی بچی ملی اور وہ سب ایک دوسرے کی زندگی کا اہم حصہ بن گئے۔
سویتا بچی کو گود لینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں ’میں ایسی جگہ سے آئی ہوں جہاں بیٹیاں بوجھ کی طرح پالی جاتی ہیں اور انھیں بس رخصت کر دیا جاتا ہے۔ لڑکی کی پیدائش سے بچنے کے لیے ان کی جنس کی رازدارانہ طور جانچ کی جاتی ہے لیکن میں اپنی بیٹی کو واقعتاً صحیح طریقے سے پالنا چاہتی تھی۔ بیٹیاں بھی بیٹوں کی ہی طرح اسی لاڈ پیار اور قدر کی مستحق ہیں۔ اس لیے ایک بیٹا ہونے کے باوجود میں نے ایک لڑکی کو یکساں طور پر ایک پر خلوص زندگی دینے کا فیصلہ کیا۔ آج میری بیٹی پیہو سب کی پیاری بن گئی ہے۔‘
ایسے ملک میں جہاں بیٹیاں غیر ضروری اور غیر مطلوبہ اولاد تسلیم کی جاتی ہیں وہاں ایسے بھی لوگ ہیں جو لڑکیوں کو گود لے کر اس تفریق کو دور کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو گود لینے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
سینٹرل اڈاپشن ریسورس ایجنسی (سی اے آر اے) کے 2018-19 اعداد و شمار کے مطابق اس دوران تقریباً 60 فیصد لڑکیوں کو گود لیا گیا ہے۔ سنہ 2018-19 کے دوران انڈیا میں مجموعی طور پر 3374 بچوں کو گود لیا گیا تھا جن میں سے 1977 لڑکیاں اور 1397 لڑکے ہیں۔
انڈیا میں تنظیم سی اے آر اے بچہ گود لینے کے معاملے میں نوڈل باڈی کی طرح کام کرتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر یتیم، چھوڑ دیے جانے والے اور خود سے دیے جانے والے بچوں کے گود لینے کے لیے کام کرتی ہے۔
نئے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ممالک میں انڈیا سے مجموعی طور پر 653 بچوں کو گود لیا گیا جن میں سے 421 لڑکیاں اور 232 لڑکے شامل تھے۔ اس طرح رواں سال مجموعی طور پر 4027 بچے گود لیے گئے۔
گود لینے کے معاملے میں ریاست مہاراشٹر سرفہرست ہے جہاں مجموعی طور پر 477 بچوں کو گود لیا گیا۔
کئی سال سے اعداد و شمار میں اسی قسم کے رجحانات نظر آ رہے ہیں۔ سنہ 2016-17 میں انڈیا میں 3210 بچوں کو گود لیا گیا تھا جس میں 1975 لڑکیاں اور 1295 لڑکے تھے۔ سنہ 2015-16 میں، 3011 بچوں کو گود لیا گیا جن میں 1855 لڑکیاں جبکہ 1156 لڑکے شامل تھے۔ سنہ 2017-18 میں 3276 بچوں کو گود لیا گیا لیکن یہاں جنس کی بنیاد پر اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
انڈیا میں عورتوں اور مردوں کا صنفی تناسب کبھی برابر نہیں رہا جس کا سبب رحم مادر میں ہی بچیوں کا قتل ہے اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق انڈیا میں ہر 1000 مردوں کے مقابلے میں 943 خواتین ہیں۔ ہریانہ، دہلی، جموں اور کشمیر، چنڈی گڑھ اور مہاراشٹر ریاستوں میں تو یہ تناسب 900 سے بھی کم ہے۔
ایسی صورت حال میں گود لینے کے یہ اعداد و شمار حیران کن ہیں۔ گھر کے چراغ کی تلاش والے معاشرے میں بیٹیاں اپنائی جا رہی ہیں۔ آخر اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟
حساس لوگ بیٹیاں چاہتے ہیں
سویتا کہتی ہیں: ’میں کئی ایسے لوگوں سے مل چکی ہوں جو بچہ گود لینا چاہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جن کی اپنی اولاد نہیں ہے۔ ان میں سے جنھیں اپنا خاندان چلانا ہے وہ رشتہ داروں کا بیٹا گود لے لیتے ہیں لیکن جنھیں صرف بچہ پالنا ہے وہ لڑکیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
’جو قدرے حساس افراد ہیں وہی بچے کو اپناتے بھی ہیں۔ لہذا، وہ لڑکیوں کی طرف زیادہ رجحان دکھاتے ہیں کیونکہ معاشرے میں ان کے حالات بدتر ہیں۔ معاشرے میں پہلے سے کہیں زیادہ تبدیلی آئی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ بیٹیاں زیادہ خیال کرتی ہیں۔ لوگ تمام طریقے آزمانے کے بعد ہی گود لینے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں انھیں بیٹی کا ساتھ زیادہ راحت اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘
ایک بڑی وجہ جائیداد بھی ہے
دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں وومن سٹڈیز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر فردوس عظمت کہتی ہیں ’اس کے پس پشت جائیداد بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ جب آپ بچہ گود لیتے ہیں تو قانونی طور پر وہ آپ کی جائیداد کا بھی حقدار بن جاتا ہے۔ اگر آپ بیٹا گود لیں گے تو آپ کی جائیداد پوری طرح اس کے پاس چلی جائے گی۔ لیکن اگر بیٹی ہوگی تو وہ شادی کرکے وہاں سے چلی جائے گی۔ ایسے میں یہ ضروری نہیں کہ وہ آپ کی جائیداد میں پورا حق مانگے یا بزنس کی ذمہ داری اٹھالے۔‘
‘اس صورتحال میں، اگر بیٹا گود لیا تو خاندان اور رشتہ داروں میں اسے پوری طرح قبول نہیں کیا جاتا۔ لوگ یہ قبول نہیں کر سکتے کہ کسی باہر سے آنے والے بچے کے ہاتھ ساری جائیداد لگ جائے۔ ایسے میں بیٹی بہتر متبادل ہے۔‘
فردوس لڑکیوں کی سمگلنگ کو بھی ایک وجہ بتاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’یہ تو نہیں بتا سکتی کہ کتنے معاملوں میں ایسا ہوتا ہے لیکن لڑکیوں کے ساتھ یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔ ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو غلط مقصد کے لیے لڑکیوں کو گود لیتے ہوں۔ حالانکہ جانچ ہوتی ہے لیکن اس امکان کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔‘
آئے دن بچیوں کے کوڑے کے ڈھیر یا نالوں سے ملنے کی خبریں آتی ہیں۔ انھیں پیدا ہوتے ہی مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے میں یتیموں میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
سویتا کا کہنا ہے کہ والدین کے سامنے لڑکیوں کے معاملے میں زیادہ متبادل موجود ہیں۔ زیادہ تر والدین کو بہت زیادہ چھوٹے بچے چاہیے ہوتے ہیں تاکہ وہ آسانی سے گھر میں گھل مل جائے۔ اور اس عمر کی زیادہ تر لڑکیاں ہی ملتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وجوہات جو بھی ہوں لیکن وہ بچے مختلف دنیا میں رہتے ہیں۔ جب آپ ان بچوں کی دنیا تک پہنچتے ہیں تو ہی ان کی حقیقت آپ پر ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سب کو بچہ گود لینا چاہیے لیکن انھیں جاننے کی کوشش ضرور کرنا چاہیے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ ان محروم بچوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو