بچوں کا موٹاپا،والدین کی ذمہ داری

بچوں کا موٹاپا،والدین کی ذمہ داری

 تحریر : نجف زہرا تقوی

ایک زمانہ تھا کہ مرضِ قلب اور ذیا بطیس کی بیماری جوانی کا دور گزرنے کے بعد لاحق ہوتی تھی،لیکن بھلا ہو جدید طرزِ زندگی اور نئی نئی خوردنی اشیاء کا کہ اب یہ امراض بچوں اور نوجوانوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔برٹش میڈیکل جرنل کی حالیہ رپورٹ میں یہ تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ نوجوانوں میں فربہی پریشان کُن ھد تک تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ایک تہائی نوجوانوں کا وزن معمول سے زیادہ ہے اور دس فیصد سے زیادہ موٹاپے کی حد میں ہیں اور یہی موٹاپا ذیا بطیس اور امراضِ قلب کی جڑ ہے۔اس سلسلے میں والدین بھی کسی حدتک قصور وار ہیں۔

اگر والدین اپنی آسانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اور اپنی ذمے داریوں سے منہ موڑ کر بچوں کو ان کی من بھاتی غذا کھانے دیںا ور گھنٹوں ٹی وی اور موبائل کے سامنے بیٹھا رہنے دیں تو اس کے لیے صرف بچوں کو ہی قصور وار نہیں گردانا جا سکتا۔غیر صحت بخش بلکہ مضرِ صحت غذا اور طرزِ زندگی کا الزام اکثر والدین ان تجارتی اداروں پر دھتے ہیں جو ان غذائی اشیاء کو خوبصورت اشتہاروں کے سہارے بچوں تک پہنچاتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اکثر اشتہارات نہ صرف بچوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ والدین سے بھی ان کی عقل و شعور چھین لیتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اکثر اشتہاروں میں مشہور اور مقبول قومی اور بین االاقوامی شخصیتوں کے علاوہ ایسے اداروںکا بھی تعاون حاصل کیاجاتا ہے جو لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد ہوتے ہیں،تاہم والدین کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ،کیونکہ اب بازار میں بکنے والی کھانے کی چیزوں کے نفع نقصان اور صحت پر ان کے اثرات کے بارے میں لوگ پہلے سے زیادہ با خبر ہیں،نیز انہیں ورزش اور جسمانی سر گرمی کے فوائد اور ٹی وی یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے رہنے کے مضر اثرات سے بھی خوب آگہی ہے،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو ہمیں خود اور نہ اپنی اولاد پر قابو رہا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ صحت بخش ،مقوی غذا اور ورزش سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ اس کا دماغی صحت پر بھی مثبت اثر پڑٹا ہے۔مطلب یہ ہے کہ ذہنی نشو و نما کے لیے بھی مناسب ورزش اور صحت بخش غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور بچوں کو یہ دونوں چیزیں فراہم کرنے کے سلسلے میں سرکاری،نجی تعلیمی اداروں اور والدین پر یکساں ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایک برطانوی ماہرِ غذائیات کی رائے ہے کہ ہمیں بچوں کی کمر کی پیمائش پر خاص توجہ دینی چاہیے جس سے یہ پتا چلے کہ وہ جسم کے بالائی حصے میں کتنی چربی جمع کر رہے ہیں۔

جسم کے بالائی حصے میں جمع شدہ چربی ہی حقیقتاً وہ چکنائی ہے جو آگے چل کر امراضِ قلب اور ذیا بطیس کا سبب بنتی ہے۔اس ماہر نے ورزش کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ بعض بچے مقدار میں کم کھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا وز ن کم نہیں ہوتاکیونکہ بچوں میں جسمانی سر گرمی یا ورزش کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ والدین کو اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا چاہیے ۔اگر وہ بچوں کی خاطر تھوڑا وقت نکالیں اور اپنی نگرانی میں انہیں کھیل کود کا موقع فراہم کریں تو صورتِ حال بہتر ہو سکتی ہے۔

بچوں کی صحت کے حوالے سے کی گئی ایک اور تحقیق کے مُطابق ٹی وی ،کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچوں میں بھی ہائپر ایکٹیویٹی اور موٹاپے کے امرض میں مُبتلا ہونے کے امکانات دوسرے ہم عُمر بچوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔مائیں اپنی آسانی کو دیکھتے ہوئے گھر کا کام جلدی نمٹانے کے لیے بچوں کو ٹی وی پر کارٹونز وغیرہ لگا دیتی ہیں تا کہ وہ انہیں بار بار تنگ بھی نہ کریں اور مائیں اپنے کاموں سے فارغ ہو جائیں۔

وقتی طور پر تو یہ طریقہ مائوں کے لیے مُفید ثابت ہوتا ہے مگر اس کے نتائج بہت خطر ناک ہو سکتے ہیں۔ٹی وی دیکھنے والے بچے اپنی پڑھائی پر کم توجہ دیتے ہیں۔لگاتار ٹی وی دیکھنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے کے باعث دماغ ہر وقت چُست رہنے لگتا ہے جس کا نتیجہ ہائپر ایکٹیویٹی سنڈروم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

اس بیماری میں مُبتلا بچے نہ تو زیادہ دیر تک بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی توجہ کسی چیز پر مر کوز رکھ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا تعلیم پر سے دھیان ہٹ جاتا ہے اور وہ بہت جلد منفی رجحانات کو اپنا لیتے ہیں۔ایسے بچے نہ صرف جسمانی بلکہ اخلاقی طور پر بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔مُضر صحت خوراک اور ٹی وی ،ویڈیو گیمز وغیرہ کی وجہ سے بچے نہ صرف جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی بُری طرح اُلجھ جاتے ہیں۔اس لیے والدین اور خاص طور پر مائوں کو چاہیے کہ جہاں تک مُمکن ہو بچوں کو کھانا گھر پر تیار کر کے دیں۔

ان کی من پسند اشیاء میں اگر فاسٹ فوڈ شامل ہے تو بھی کوشش کریں کہ گھر پر تیار شُدہ بر گر اور سینڈوچز وغیرہ بچے کو کھانے کے لیے دیں اور آہستہ آہستہ ان میں گھر کے کھانے مثلاً سبزیاں،گوشت ،چاول او ر پھل وغیرہ کھانے کا شوق پیدا کریں۔اس کا طریقے کار بھی نہایت آسان ہے بچوں کے پسندیدہ کھانوں مثلاً بر گر وغیرہ میں سبزیاں شامل کر کے انہیں کھانے کے لیے دیں ۔اس طرح بچے کو صحت بخش چیزوں کا ذائقہ بھی پسند آنے لگے گا اور ساتھ بچوں کو ان کی افادیت سے بھی آگاہ کرتی رہیں۔مائوں کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گُزاریں تا کہ وہ تنہائی کا شکار نہ ہوں اور انہیں صحت کے لیے مُفید سر گرمیوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کریں۔

تل کھائیں جوان نظر آئیں

اگر آپ چاہتی ہیں کہ جلد بوڑھی نہ ہوں اور آپ کی جلد پر جھریاں بھی نہ پڑیں تو آج سے ہی تِل کھانا شروع کر دیں۔یوں توسیاہ رنگ کے تِلوں کا تیل عام طور پر کھانا پکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاہم یہ بالوں کی نشو نما کے لیے بھی انتہائی موزوں ہے۔سیسمی نامی پھولدار پودے کے بیج یعنی تِلوں کو انگریزی میں سیسمی یا بینی سیڈ کہا جاتا ہے،اور یہ دنیا بھر میں بطور غذا استعمال ہوتے ہیں۔سمسم کے پھول عموماً زرد اور بعض اوقات نیلے یا جامنی رنگ کے ہوتے ہیں۔جبکہ اس پودے کے بیج تکونی شکل کے ہوتے ہیں۔رنگت میں فرق کے باعث انہیں تِل سفید اور تِل سیاہ کہا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں گزشتہ کئی صدیوں سے انہیں مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔بالخصوص موسم سرما میں تِل اور گُڑ کے لڈوئوں،ریوڑیوں اور گرک کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔کُلچہ بھی سفید تِلوں کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ غذائیت کے اعتبار سے سفید تِلوں کے مقابلے میں کالے تِل زیادہ بہتر سمجھے جاتے ہیں۔یوں تو دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کا پودا پایا جاتا ہے تاہم امریکہ،چین ،اٹلی،جاپان،بھارت اور پاکستان میں یہ خاصا عام ہے۔کولہو میں پیس کر ان کا تیل بھی نکالا جاتا ہے جیس عرف عام میں میٹھا تیل کہتے ہیں۔ سیاہ رنگ کے تِلوں کا تیل عام طور پر کھانا پکانے اور مارجرین بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ اسے بالوں کی نشوونما کے لیے بھی انتہائی موزوں خیال کیا جاتا ہے۔دیسی ادویات میں بھی تِل اور تِلوں کا تیل صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔اس تیل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ عرصہ دراز تک خراب نہیں ہوتا۔تِل اپنے اندر گوشت جیسے خواص رکھتے ہیں ۔

اس لیے انہیں طاقت حاصل کرنے اور عمر بڑھانے کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔محنت کشوں کی جسمانی قوت اور دیہاتی باشندوں کی دراز عمری اور صحت کا راز بھی تِل جیسی غذا میں پوشیدہ ہے۔پرانے زمانے میں پہلوانی کا شوق رکھنے والے افراد بھی اپنی طاقت بڑھانے کے لیے تِل استعمال کرتے تھے۔جو لوگ کسی وجہ سے گوشت نہیں کھاتے انہیں تِلوں کا استعمال ضرورکرنا چاہیے۔دوسرے لفظوں میں تِل نباتاتی گوشت ہے جس میں لیسی تھین کی وافر مقدار موجو دہے۔لیسی تھین ایک فاسفورس آمیزہ چکنائی ہے جو پٹھوں کی صحت کے لیے نہایت اہم ہے۔قوت حافظہ کو توانا رکھنے کے لیے انسانی بدن میں لیسی تھین کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔

تِلوں کے پتے بالوں کو مضبوط اور لمبا کرنے کے لیے بے حد مفید سمجھے جاتے ہیں۔ استعمال کے لیے پودے کے تازہ پتے لے کر انہیں اچھی طرح کوٹ کر رس نکال لیں او ر بالوں کی جڑوں میں اچھی طرح مساج کریں۔یہ عمل نہ صرف بالوں کی سیاہی عرصہ تک قائم رکھتا ہے بلکہ اس سے بالوں کی نشونما بھی خوب ہوتی ہے۔بنیادی طور پر تِل وٹامن ای کا خزانہ ہیں۔یہ وٹامن انسان کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا اور اس کی موجودگی سے جلد پر جھریاں نہیں پڑتیں۔تِلوں کا استعمال پھیپھڑوں اور کھانسی کے لیے بھی مفید ہے،جبکہ ان کا متواتر استعمال جلد کی رنگت کو نکھارتا ہے۔

تِل کھانے کا صحیح طریقہ: تِلوں کوہلکا سا بھون کر ان میں مناسب مقدار میں شہد ملا لیں اور روزانہ دو سے تین چمچ کھائیں۔تِلوں کو دیر تا محفوظ رکھنے کے لیے انہیں بھون کر رکھا جا سکتا ہے۔تِلوں کو کھانے کے بعد اگر سرکہ یا انار دانہ لے لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے،کیونکہ سرکہ یا انار دانہ معدے کو معتدل رکھتے ہیں۔

گھریلو کام ورزش کا نعم البدل نہیں 

گھریلو کام سے وہ فائدہ نہیں ہو سکتا جو جسمانی ورزش سے ہوتا ہے۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گھریلو کام کرنے میں اتنی توانائی صرف نہیں ہوتی کہ یہ ورزش کا نعم البدل ثابت ہو سکے۔پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ گھریلو کام کرنے سے ایک ہفتے میں کم از کم150منٹ کی تجویز کردہ لازمی ورزش کی ضرورت نہیں رہتی۔یہ تحقیق بی ایم سی جریدے میں شائع ہوئی ہے جس میں ساڑھے چار ہزار بالغ افرادکا سروے کیا گیا ہے۔سروے میں شامل افراد سے ان کی جسمانی سر گرمی،کھیل اور ورزش میں حصہ لینے کے علاوہ مُضر صحت سرگرمیوں کے حوالے سے تفصیلی انٹر ویوز کیے گئے۔

ان سے خاص طور پر ان کے گھریلو کاموں کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔سروے میں شامل افراد نے بتایا کہ ان کی جسمانی سرگرمی میں36فیصد گھریلو کام ہوتا ہے،لیکن تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ گھریلو کام اور پتلا پن ایک دوسرے کے برعکس ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے لوگ یا گھریلو کام کرنے کو کوئی بہت بڑی جسمانی سر گرمی سمجھتے ہیں یا جتنے کام کرتے ہیں اس کی نسبت کھاتے بہت زیادہ ہیں،لیکن جب محققین نے ان کے وزن اور قد کا تجزیہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ جن افراد نے گھریلو کام کو ورزش کے طور پرلیا تو ان کا وزن ان افراد کے مقابلے میں زیادہ تھا جو کسی اور قسم کی سر گر میاں اختیار کرتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی جسمانی کام کا فائدہ اس وقت ہو سکتا ہے جب کام کے دوران سانس میں تیزی آئے اور دل کی دھڑکن تیز ہو جائے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو کام کرنے سے ہفتے میں ڈیڑھ سو منٹ کی تجویز کردہ لازمی ورزش کی ضرورت تو پوری نہیں ہوتی لیکن کچھ نہ کرنے سے کچھ کرتے رہنا بہتر ہے ،لہٰذا اگر آپ صرف گھر کے کام بھی کر رہے ہیں تو آپ کے لیے بہتر ہی ہیں۔اس کے باوجود لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ انہیں پھر بھی ورزش کی لازمی ضرورت ہے۔عام طور پر خواتین اور عمر رسیدہ افراد گھریلو کام کو ورزش کے طور پر لیتے ہیں ،تا ہم اس قسم کی سر گرمیوں سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گھریلو کام اور دُبلا پن ایک دوسرے کے بر عکس ہیں لہٰذا اگر آپ ورزش کے لیے زیادہ وقت نہیں نکال پاتے تو دن بھر کے کاموں کے بعد رات کو تھوڑی دیر کی چہل قدمی بھی آپ کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

ورزش نہ کرنے والے افراد کے لیے پیدل چلنا بہت ضروری ہے۔عام طور پر خیال کیاجاتا ہے کہ صرف صبح کی سیر ہی صحت کے لیے مُفید ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن رات کے وقت پیدل چلنا بھی آپ کے جسم کو بے حد فائدہ پہنچاتا ہے۔آج کل عام طور پر صبح کے وقت اتنا ٹائم ہی نہیں ملتا کہ آدھا گھنٹہ یا گھنٹہ سیر کر لی جائے۔اسی لیے ڈاکٹروں نے مردوں اور خواتین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دن بھر کے کام نمٹا لینے کے بعد یہ کمی رات کے وقت پوری کر لیں تا کہ کھانا بھی اچھی طرح ہضم ہو اور نیند بھی بھر پور آئے۔

ٹوٹکے

نمک دانیاں

چھوٹی چھوٹی نمک دانیاں خاص طور پر جن پر کٹ گلاس ہو،ان کو علیحدہ علیحدہ دھونے کی بجائے پلاسٹک کے لفافے میں گرم پانی اور واشنگ پائوڈر ڈال کرہلائیں،پھر صاف پانی سے دھو لیں۔ایک ہی وقت میں ساری نمک دانیاں چمک اُٹھیں گی۔

بانس کے میٹس

بانس کی تیلیوں کے میٹس بڑے نازک اور خوبصورت لگتے ہیں،مگر بار بار دھُلنے پر ان کی خوبصورتی زائل ہو جاتی ہے۔ان میٹس کو اگر چائے کے قہوے میں چند گھنٹے کے لیے ڈبو دیا جائے تو خشک ہونے پرخوش رنگ ہو جاتے ہیں۔

گھی کی چڑ چڑاہٹ

فرائی پین میں ذرا سا بھی گیلا پن رہ گیا ہو تو جب آپ گھی ڈال کر کوئی چیز تلنے لگتی ہیں تو گھی چڑ چڑ کرتا ہوا اُچھلتا ہے۔اگر اس اُچھلتے گھی میں چٹکی بھر آٹا چھڑ ک دیا جائے تو اُچھلنا بند ہو جائے گا۔

ٹماٹر کا چھلکا

بعض لوگ ٹماٹر کے چھلکے کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں۔ویسے بھی چھلکا ہضم نہیں ہوتا اور نہ ہی سالن میں گلتا ہے۔ٹماٹر کا چھلکا اتارنے کا ایک آزمودہ ٹوٹکہ ہے۔ٹماٹر کو کانٹے یا چھری کی نوک چبھو کر پکڑ لیں اور آگ پر رکھیں۔چھلکا تڑخ کر پھٹ جائے گا اب آسانی سے سارا چھلکا اُتار دیں،اور ٹماٹر سالن میں ڈال لیں۔

بانس کی اشیاء

بانس کا فرنیچر یا ٹوکریاں بہت خوبصورت لگتی ہیں،اگر یہ میلی ہو جائیں تو انہیں نمک ملے پانے سے دھونے پر بالکل صاف ہو جائیں گی۔

خربوزہ اور گوشت

بعض اوقات گوشت ایسا آ جاتا ہے جو گلنے میں نہیں آتا۔خربوزے کے چھلکے پھینکنے کی بجائے ان کو سکھا کر رکھ لیں،اور گوشت میں ڈال دیں تو وہ گل جائے گا۔

x

Check Also

ہماری غذاء میں شہد کیوں ضروری ہے؟

ہماری غذاء میں شہد کیوں ضروری ہے؟

اگر ہم شہد کے ذائقے کی بات کریں تو بہت سے لوگ شہد کا میٹھا ...

%d bloggers like this: