اسکول فیس کی مد میں سڑک سے اکٹھا کیا گیا پلاسٹک جمع کراتے ہیں۔
اکشر نامی اسکول کی انتظامیہ ری سائیکلنگ ’بازیافت‘ عمل کو آگے بڑھانا چاہتی ہےاور اسی مناسبت سے ’پلاسٹک اسکول فیس‘ کا تصور پیدا کیا گیا ہے۔ اسی لیے 2016 میں اکشر فورم کی بنیاد رکھی گئی اور ایک نہایت پسماندہ علاقے میں اسکول کھولا گیا۔
اسکول میں بڑے بچے چھوٹے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور انہیں علامتی رقم دی جاتی ہے۔ پھر اس رقم سے اسکول انتظامیہ بچوں کو آن لائن اشیا خرید کر دیتی ہے جس میں کتابیں اور کپڑے وغیرہ شامل ہیں۔
اسکول میں تدریس کے علاوہ بچوں کو ماحولیات اور پلاسٹک کے نقصانات کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔ بچے گھر جاکر اپنے والدین کو بتاتے ہیں کہ صرف سردی سے بچنے کے لیے پلاسٹک جلانا کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ بچے دن کا کافی وقت اسکول میں گزارتے ہیں اور بڑے بچے ان کو پڑھاتے ہیں۔
بچے اس وقت تک اسکول میں پڑھتے رہتے ہیں جب تک ان کے لیے کوئی انٹرنشپ، کالج میں داخلے یا پھر نوکری کا انتظام نہیں ہوجاتا۔ اسکول میں ریاضی، انگریزی، سائنس کے ساتھ ساتھ کڑاہی، فوٹوگرافی، بڑھئی کا کام اور دیگر امور بھی سکھائے جاتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’اسکول سے روزگار‘ اس اسکول کا مرکزی نعرہ بھی ہے۔ پہلے یہاں 20 اسکول تھے اور اب 110 سے بھی زائد بچے یہاں پڑھ رہے ہیں۔
ہر بچے کو ہفتے میں پلاسٹک کچرے کے 25 ٹکڑے لانا ہوتے ہیں۔ اس کچرے کو ماحول دوست اینٹوں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
مزین اور پرمتا دونوں اسکول کے بانیان میں شامل ہیں اور اب وہ پورے بھارت میں مزید 100 اسکول قائم کریں گے۔