ایف بی آر نوٹسز کا جواب نہ آنے پر ریفرنس بھیجا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشیل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد مختلف ذرائع سے معلوم ہوا کہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی ایک اعلی آئینی عہدیدار سے اکثر خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ہفتہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکومتی ذریعہ نے ایسی چند ملاقاتوں کی تصدیق کی۔ تاہم ذریعہ کااس بات پر زور تھا کہ ملاقاتیں محض دستور سازی کے حو الے سے تھیں تاہم ان ملاقاتوں سے میڈیا کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ حکومتی ذریعہ حالیہ دنوںمیں مذکورہ ایشو پر اس نمائندے کی رپورٹنگ سے پریشان دکھائی دیا۔ اس کا دعویٰ ہےکہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائرکرنے کی پشت پرکوئی مذموم مقصد نہیں۔ اس ذریعہ کا دعویٰ ہےکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ایف بی آر نے بیرسٹر شہزاد اکبر کی قیادت میں اثاثے ریکوری یونٹ کی جانب سے دریافت اثاثوں کے حوالےسےمتعدد بار نوٹس بھیجے لیکن ان کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ایک سوال پر سرکاری ذرائع نے کہاکہ ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ جسٹس عیسیٰ کو بھی ایک نوٹس دیا گیا تاہم وزارت قانون مکمل طورپر مطمئن نہیں کہ آیا وہ نوٹس باضابطہ طور پر انہیں ملا یا نہیں ۔ جسٹس عیسیٰ کو خفیہ دبائو کے ذریعہ ہدف بنانے کی تردید کرتےہوئے حکومتی ذریعہ نے کہا کہ شہزاد اکبر کے اثاثے ریکوری یونٹ کو یہ معلومات ملیں کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے بیرون ملک اثاثے ہیں۔ ذریعہ نے مزید کہا کہ جائیدادکے بارے میں حقائق کے تعین کے لئے ایف آئی اے اور ایف بی آر کو شامل کرنے کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کو حقائق سے آگاہ کیا گیا۔ وزارت قانون اور اے آر یو ہفتوں اس ایشو پرکام کرتے رہے اور غیر ملکی جائیداد کی مستند نقول حاصل کیں۔ حکومتی ذریعہ کے مطابق ایف بی آر کوجج کےگوشواروں کا جائزہ لینے کے لئے کہا گیا کہ آیا انہوں نے غیر ملکی اثاثے ظاہر کئے ہیں یا نہیں۔ ایف بی آر کو معلوم ہواکہ غیر ملکی اثاثے ظاہر نہیں کئے گئے۔ حکومتی ذریعہ کااس بات پر بھی زورتھا کہ اے آر یو سے جو معلومات حاصل ہوئیں اور جو وزارت قانون کے حوالے کی گئیں۔ حقائق کا تعین کرنے کے لئے تفصیلی تحقیقات عمل میں لائی گئیں اورکوئی امکان نہیں چھوڑاگیا۔ اس کے بعدہی ریفرنس سپریم جوڈیشیل میں دائر کیا گیا۔ حکومتی ذریعہ نے کہا اگر حکومت تمام دستیاب معلومات کو طاق کی زینت بنادیتی اور سپریم جوڈیشیل کونسل میں ریفرنس دائر نہ کرتی تو میڈیا شور مچاتا اورحکومت پرآنکھیں بند کرنے کاالزام لگادیا جاتا۔ تاہم آزاد ذرائع اس بات پر زور دیتےہیں کہ اس کیس کے بارے میں حقائق اسی وقت واضح ہوں گے جب جسٹس عیسیٰ خود اس ایشو پر بولیں گے۔ ابھی تک ان کی جانب سے کوئی موقف دستیاب نہیں ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ غیر ملکی ہیں اورا ن کا اپنے شوہر کی آمدنی پر انحصار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سلمان اکرم ر اجا نے اپنے ایک حالیہ ٹوئیٹ میں کہا کہ کسی کے دولت گوشوارے ظاہر کرنے کی اس وقت ضرورت ہوتی ہے اگر وہ اثاثے اس کے شوہر /بیوی کے فراہم کردہ فنڈز سے حاصل کئے گئے ہوں اور بے نامی اثاثوں میں رکھے جائیں۔ بیوی کی جانب سے خریدی گئی جائیداد یااثاثے صرف گوشواروں میں ظاہر کرنے ہوتے ہیں۔ یہ بات واضح نہیں کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ پاکستانی ٹیکس قوانین کے تحت ٹیکس ریذیڈنٹ ہیں یا نہیں۔سرکاری ذرائع نے ایک بار پھر اس بات کو دہرایا کہ یہ عدلیہ کیخلاف سازش کیسے ہوسکتی ہے جبکہ فیصلہ عدلیہ نے ہی کرنا ہے ، ذرائع نے کہا کہ اس کا افتخار چوہدری کیس سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ، اُس کیس میں انہیں معزول کرکے استعفیٰ دینے کا کہا گیا تھا لیکن یہ ریفرنس آئین کے مطابق بھیجا گیا ہے ۔

x

Check Also

اینکر مبشر لقمان کی پیمرا کے دفتر میں توڑ پھوڑ، عملے کو یرغمال بنائے رکھا

اسلام آباد (عمر چیمہ) 13؍ فروری کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ایک ...

%d bloggers like this: