نظر نہ آنے والےامیگریشن نگران

یہ دور مصنوعی ذہانت کا سہارا لے کر ٹیکنالوجی کو مزید جدید بنانے کا ہے اور کئی ممالک ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

یہ وہ ملک ہیں جن کی سرحدوں کو پار کرنے والوں کی لمبی قطاریں موجود ہوتی ہیں۔ پاسپورٹ کنٹرول، مشکوک مسافروں اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے؟

امیگریشن کے وقت نگرانی کرنے والوں کو ایک سخت ترین ڈیوٹی کا سامنا ہوتا ہے۔ دن بھر میں ان کا سامنا کئی طرح کے لوگوں سے پڑتا ہے، ان سے سوال و جواب اور تفتیش کے مرحلے کسی بھی طرح آسان ثابت نہیں ہوتے۔ حالیہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ اور ممنوعہ اشیاء کی روک تھام نے اس کام کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

جدید دور کے ساتھ انسان کے ہمراہ کمپیوٹر سسٹم پر ایک کِلک پر تمام معلومات نے سرحدیں پار کرنے والے مسافروں کی نگرانی کو کچھ آسان کر دیا ہے لیکن پھر بھی امیگریشن کے وقت مسافر اور وہاں ڈیوٹی سرانجام دینے والوں کے لیے یہ آسان مرحلے نہیں ہوتے۔

وہ وقت دور نہیں ہے جب امیگریشن کے وقت ایک اور نظر نہ آنے والا بارڈر ایجنٹ موقع پر موجود ہو گا۔ اس ایجنٹ کے ہاتھ میں فیصلہ ہو گا کہ آیا کوئی مسافر یہاں سے باہر جانے کے لیے کلیئر ہے یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ایجنٹ سے نہ تکرار کی جاسکے گی نا ہی یہ کوئی وجہ سنے گا اور نہ ہی اس کا دل موم ہو گا۔

یوں کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ بارڈر ایجنٹ انسانیت سے عاری ہوں گے کیونکہ یہ انسان ہی نہیں ہوں گے۔

امریکی ٹیکنالوجی فرم یونیسس نے امریکی کسٹمز اور بارڈر پیٹرول کے ساتھ 2011 میں نئی ٹیکنالوجی پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ اس ٹیکنالوجی کا کام خطرناک مسافروں کے فلائٹ پر سوا ہونے سے پہلے ان کی نشاندہی کرنا ہے۔ لائن سائٹ نامی یہ سسٹم مختلف حکومتی ایجنسیوں اور دیگر ذرائع سے حاصل شدہ معلومات سے حساب کے ذریعے خطرے کا اندازہ لگانے کا اہل ہے۔

یونیسس میں بارڈر اور نیشنل سیکورٹی پروگرام کے ڈائڑیکٹر جون کینڈال نے اس کی مثال دو تجرباتی مسافروں کے ذریعے دی۔ رومین اور سینڈرا دو ایسے مسافر ہیں جنہوں نے باقاعدہ ٹکٹ لے رکھی تھی اور ان کے پاس باقاعدہ پاسپورٹس اور ویزے بھی موجود تھے۔

یہ دونوں مسافر بغیر کسی دشواری کے سیکورٹی کے تمام مراحل طے کرنے کے اہل ہو سکتے تھے لیکن لائِن سائٹ سسٹم نے رومین کے گزشتہ کیے جانے والے سفر میں کچھ مشکوک محسوس کیا۔ اس نے گزشتہ برسوں میں کئی دفعہ اس ملک کا سفر کیا تھا اور تمام بچوں کے آخر کے نام مختلف تھے۔ اس سے انسانی اسمگلنگ کی نشاندہی ہو سکتی تھی۔

اس کے علاوہ رومین نے جس کریڈٹ کارڈ سے ٹکٹ کی رقم ادا کی وہ ایسے بینک سے منسلک تھا جس کا نام یورپ میں سیکس اسمگلنگ کے معاملات میں لیا جاتا تھا۔

یہ ساری معلومات دستیاب تو تھیں لیکن ان کا تجزیہ انسان کے بس کا کام نہیں سمجھا جا سکتا وہ بھی اتنے کم وقت میں۔

کینڈال کا کہنا ہے کہ صرف اتنا ہی ہم اس سسٹم کو اس قابل بنا دیں گے کہ یہ باریک سے باریک معلومات بھی لمحوں میں تجزیہ کر سکے اور حاصل شدہ تمام معلومات کے ایک دوسرے سے جوڑ سکے۔

کینڈال اس مصنوعی ذہانت کے حالیہ سسٹم کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔ اس سسٹم سے نہ صرف بین الاقوامی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے گا بلکہ امیگریشن کاؤنٹرز پر لگنے والی طویل قطاروں کو تیز روی سے آگے بڑھانے میں بھی مدد گار ثابت ہو گا۔

x

Check Also

رینج روور، بینٹلے میں ڈرائیونگ سیکھیں، لگژری ڈرائیونگ سکول کھل گیا

ڈرائیونگ سکول میں جاتے ہی جو کار آپ کو دی جاتی ہے، اس کو دیکھتے ...

%d bloggers like this: