بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں ملک کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی کے اعلان کے دوسرے ہی روز مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر گائے کا گوشت لے جانے والے مسلمان جوڑے کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنا دیا۔
واقعے سے متعلق سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل ہجوم نے پہلے مسلمان نوجوان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
مشتعل ہجوم میں شامل افراد، جن میں سے بعض نے چہرے ڈھانپ رکھے تھے، نے نوجوان کو ڈنڈوں اور لاتوں سے تشدد کا نشانہ بنایا اور اس دوران اسے نازیبا الفاظ سے بھی پکارتے رہے جبکہ اس دوران نوجوان ان سے رحم کی اپیل کرتا رہا۔
بعد ازاں ہجوم نے نوجوان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی اہلیہ پر تشدد کرے۔
ویڈیو میں مزید دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل ہجوم نے مسلمان جوڑے کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور نوجوان کو اس کی اہلیہ پر تشدد کے لیے کہا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں نوجوان نے اپنی اہلیہ کے سر میں جوتے برسائے اور ساتھ ہی ان سے ‘جے شری رام’ کے نعرے بھی لگوائے گئے۔
بھارت کی ایک سماجی رضاکار رچنا دھینگرا نے مذکورہ ویڈیو کو سماجی روابط کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا کہ حکام اس افسوسناک واقعے کا نوٹس لیں گے۔
A day after on all the talk on inclusiveness by @PMOIndia this is what happens in Seoni, MP. Muslim man being beaten on suspect of carrying beef and then asked 2 thrash his wife & say Jai Shree Ram. Hoping @DGP_MP will take some action. Truly sad. pic.twitter.com/NGZakOl7r3
— Rachna Dhingra (@RachnaDhingra) May 24, 2019
بعد ازاں جہاں سماجی رضا کار کو مذکورہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر ان کے اس اقدام کو سراہا گیا وہیں کچھ بھارتیوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ریاست اور اس کے وزیراعلیٰ کا ہے اور اس حوالے سے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی سے سوال کرنا نا مناسب ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں گائے کے ذبح اور اسمگلنگ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کی لہر دیکھی گئی ہے۔
2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گائے کے مبینہ ذبح اور اس کا گوشت کھانے کے الزام میں قتل میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو رواں برس دوسری مدت کے لیے انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں نے مشتعل ہجوم کی جانب سے گائے ذبح کرنے کے الزام میں قتل کی مذمت کی تھی اور مذہب کو تشدد کے لیے استعمال کرنے والے گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر زور دیا تھا، لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔
19 فروری 2019 کو انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا تھا کہ بھارت میں گائے ذبح کرنے پر مشتعل ہجوم کی جانب سے قتل کے اکثر واقعات میں بھارتی پولیس ملوث ہوتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ساؤتھ ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا تھا کہ ’گائے کی حفاظت کے مطالبات شاید ہندو افراد کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے شروع کیے گئے ہوں گے لیکن یہ اب مشتعل ہجوم کے لیے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کرنے کی اجازت میں تبدیل ہوگئے ہیں‘۔
میناکشی گنگولی کا کہنا تھا کہ ’بھارتی حکام کو ان حملوں کی صفائی دینا، متاثرین کو مورد الزام ٹھہرانا یا ذمہ داران کی حفاظت کرنا چھوڑ دینی چاہیے‘۔
رپورٹ کے مطابق مئی 2015 سے لے کر گزشتہ برس دسمبر تک ایسے حملوں میں کم از کم 44 افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے الزام عائد کیا تھا کہ ’ان میں سے 36 افراد مسلمان تھے اور تقریباً تمام مقدمات میں پولیس نے یا تو ابتدائی تحقیقات روک دیں، طریقہ کار کو نظر انداز کیا اور قتل کی واردات یا اس کی پردہ داری میں خود پولیس ملوث تھی‘۔
یہاں تک کہ پولیس کی جانب سے گائے ذبح کیے جانے پر پابندی کے قوانین کے تحت متاثرہ خاندان کے افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے تاکہ انہیں ڈرا کر انصاف حاصل کرنے سے روکا جاسکے۔