آفریدی ایم کیو ایم سے کیسے بچے؟

حال ہی میں جب میں شاہد آفریدی کی سوانح حیات ’گیم چینجر‘ پر ایک اسپورٹس صحافی کے ساتھ محو گفتگو تھا، تب انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ، ’آپ ایک ہی وقت میں مصباح الحق اور آفریدی کے مداح کیسے ہوسکتے ہیں؟ دونوں کی شخصیت میں تو کافی تضاد پایا جاتا ہے۔‘

بلاشبہ ان کی شخصیات متضاد ہیں۔ ایک کھلاڑی نفیس، محتاط، صاحبِ فکر اور ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ اپنے احساسات کو اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے جبکہ دوسرا کھلاڑی خاصا جذباتی، اپنی شخصیت میں بے ساختہ مزاج اور اپنے احساسات کا کھل کر اظہار کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آفریدی کی کتاب میں مجھے چند بڑی ہی دلچسپ باتوں میں سے یہ ایک لگی جب انہوں نے بڑے آرام سے اس من گھڑت تصور کو دفن کردیا کہ جب وہ پاکستان ٹیم کے لیے کھیل رہے ہوتے تھے تب ایسا ہرگز نہیں تھا کہ کھلاڑیوں کے آپسی تعلقات کبھی اچھے نہیں ہوتے تھے۔

اس کتاب میں آفریدی نے مصباح الحق کی بطور ایک نفیس شخص تعریف کی ہے، لیکن واضح رہے کہ وہ کتاب میں اس غیر مشروط طریقے سے دیگر کھلاڑیوں کی تعریف نہیں کررہے۔

وجاہت ایس خان کے ساتھ لکھی گئی گیم چینجر پڑھنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ کتاب کے بہاؤ کی رفتار آفریدی کے بلے بازی جتنی ہی تیز ہے، یعنی تباہ کن مگر ہمیشہ خطرے کو دعوت دینے والی۔

آفریدی کا اپنی بات کہنے کا طریقہ کچھ ایسا ہی ہے یعنی جلدبازی سے بھرپور۔ جو لوگ ان کے بے ربط خیالات کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ رہنا چاہتے ہیں ان کے لیے وہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہیں۔ مگر خان جو خود بھی جذباتی کردار رکھتے ہیں، آفریدی کے مزاج کو بخوبی انداز میں سمجھے۔ وہ آفریدی کی بے ربط باتوں کو سابق ’پارٹی اینیمل‘ کپتان، ہیرو، اینٹی ہیرو، ولن اور ایک بین الاقوامی کرکٹنگ ستارے کے طور پر آفریدی کے تجربات کو ایک مربوط رائے میں بدلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
کتاب جب تنازع کی زد میں آئی تو مجھے ہرگز حیرانی نہیں ہوئی۔ آفریدی ظاہر ہے کہ آفریدی ہے، اس لیے مجال ہے کہ جھک جائے۔ ایک دوسرے ’بیڈ بوائے‘ اور جذباتی پاکستانی کھلاڑی شعیب اختر کی ہندوستانی صحافی کے ساتھ لکھی گئی اور 2011ء میں منظر عام پر آنے والی سوانح حیات ’کنٹروورشلی یوئرز‘ زیادہ مایوس کن اور حدود و قیود میں رہتے ہوئے لکھی گئی کتاب ہے، اس کے برعکس گیم چینجر میں کسی شخص کو بھی نہیں بخشا گیا۔

آفریدی کی پیدائش اگرچہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں پشتون گھرانے میں ہوئی لیکن وہ اپنی شناخت سرخ خون کراچی والے کے طور پر کرواتے رہے ہیں۔ یہ وہ شہر ہے جہاں وہ بڑے ہوئے۔ وہ خوشی کے ساتھ نوجوانی کے دور میں شہر کی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے بدنام گلی کوچوں اور پسماندہ علاقوں میں مخالف گروہوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

آفریدی یہاں تک بھی بتاتے ہیں کہ وہ ایک موقعے پر ایم کیو ایم کے سخت مزاج لوگوں کے بہت زیادہ قریب آگئے تھے اور شاید ان کا انجام بھی وہی ہوتا جو 1990ء کی دہائی میں اس قسم کے دیگر لڑکوں کا ہوا، یعنی موت۔ بڑے بھائی کے ایک زوردار تھپڑ نے ان کے سارے حواس بحال کردیے۔

آفریدی کے مطابق کراچی کی گلیوں اور کلب کی کرکٹ کھلاڑیوں کو ہر مشکل صورتحال کا خود سے سامنا کرنے کے قابل اور سخت بنا دیتی ہے۔ اس قدر زیادہ سخت مزاجی اور تخلیقی صلاحیت پاکستان کے دیگر شہروں سے ابھرنے والے کھلاڑیوں میں نہیں پائی جاتی۔

ان کا کہنا ہے کہ 1996ء میں محض 19 برس کی عمر میں تیز ترین سینچری بنا کر کیریئر کا جو شاندار آغاز کیا تھا اس کے لیے انہوں نے خود پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالا تھا کیونکہ وہ پوری اننگ بے اختیار ہوکر کھیلی گئی تھی۔ یعنی جب انہوں نے 37 گیندوں پر چوکوں چھکوں کے ساتھ سینچری اسکور کی تو انہیں اس وقت کچھ ہوش نہیں تھا کہ وہ سری لنکن باؤلرز کو بے بس کرچکے ہیں۔ یہی وہ اننگ تھی جس کے بعد ان کے والد نے بھی اس کھیل سے متعلق ان کے جوش کو تسلیم کرلیا، حالانکہ پہلے ان کے والد کرکٹ کھیلنے پر انہیں مارا بھی کرتے تھے۔ یہاں وہ اس ریکارڈ کو بناتے وقت اپنی عمر 19 سال بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میڈیا نے ان کی عمر 16 بتائی جو غلط تھی۔

کتاب اپنے آغاز سے ہی رفتار پکڑنا شروع کردیتی ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ بطور بلے باز بھی آفریدی پہلی ہی گیند پر چھکا مارنے کی کوشش کے لیے جانے جاتے ہیں۔

لیکن آفریدی جیسے ہی سابق ساتھی کھلاڑیوں اور کوچز کا موضوع چھیڑتے ہیں تو چھکوں کی برسات شروع ہوجاتی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر سابق کپتان اور کوچ جاوید میانداد اور وقار یونس پر سخت خیالات کا اظہار کیا ہے۔

آفریدی الزام لگاتے ہیں کہ 1999ء میں جب میانداد ٹیم کے کوچ تھے تو انہوں نے ان کا کیریئر مختصر کرنے کی کوشش کی۔ آفریدی میانداد کو خود غرض پکارتے ہیں اور ایک ایسا شخص قرار دیتے ہیں کہ جو ’اب بھی اس ماضی میں رہتا ہے جس میں انہیں باوقار بلے باز اور اسٹار کھلاڑی تصور کیا جاتا تھا۔

وہ وقار یونس کو ’ٹیربل کیپٹن‘ (بدترین کپتان) قرار دیتے ہیں جو 2003ء کے ورلڈ کپ کے دوران ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنے میں ناکام رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وقار یونس اتنے ہی بدترین کوچ بھی ثابت ہوئے۔ آفریدی وقار یونس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کو ’انا کی تکراریں‘ پکارتے ہیں، لیکن انہوں نے کتاب میں اس بات کو واضح بھی کردیا کہ بعد میں وقار یونس کے ساتھ ان کی صلح ہوجاتی ہے۔ آفریدی نے شعیب ملک کو بھی تباہ کن کپتان پایا، اور دیگر تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجود بھی شعیب ملک کو کپتان بنانے کا الزام وہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پر ڈالتے ہیں۔

آفریدی ایک اور من گھڑت خیال کو بھی کچلتے ہیں۔ جب یونس خان کپتان تھے تو اس وقت کئی کرکٹ صحافیوں کا بڑی حد تک خیال یہ تھا کہ ان کے خلاف بغاوت کی رہنمائی آفریدی کر رہے ہیں۔ تاہم اس کتاب میں آفریدی اس کا الزام ایک دوسرے اسٹار پر عائد کرتے ہیں جس کا نام لینے سے انہوں نے گریز کیا ہے، مگر ان کی باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جس کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ اسٹائلش بلے باز محمد یوسف ہیں۔ وہ یونس خان کی تعریف میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور دعوٰی کرتے ہیں کہ یونس ڈریسنگ روم کی سیاست کا نشانہ بنے، وہی سیاست جس نے آفریدی کی اپنی کپتانی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

اس کے بعد کتاب کا وہ حصہ آتا ہے جس میں آفریدی کہتے ہیں کہ انہیں سابق پاکستانی آل راؤنڈر عبد الرزاق نے محتاط کیا تھا۔ عبد الرزاق کو شک تھا کہ کوئی مشکوک بُکی سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کے تعاقب میں ہے۔ آفریدی کے مطابق انہوں نے اس وقت کے پی سی بی چیئرمین اعجاز بٹ اور منیجر یاور سعید کو اس بات سے آگاہ کیا تھا لیکن انہوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ آفریدی نوجوان عامر کے کیریئر کو تباہی کے دہانے پر لانے اور پھر اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں پکڑے جانے پر دھڑلے سے جھوٹ بولنے پر سلمان خان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

آفریدی کی کتاب میں واحد سچا ہیرو وسیم اکرم ہے جنہوں نے کتاب کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ آفریدی وسیم اکرم کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وسیم اکرم نے ایسے وقت میں انہیں ٹیم کا حصہ بنائے رکھنے پر کام کیا جب میانداد اور یونس نے انہیں باہر رکھنے کی مبینہ کوشش کی تھی۔

وہ کہتے ہیں اکرم اور یونس میں کبھی اچھے دوستانہ تعلقات نہیں رہے۔ جہاں شعیب اختر نے عمران خان کی کپتانی میں کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا کچھ ایسی ہی خواہش کا اظہار آفریدی بھی اپنی کتاب میں کرتے ہیں، بلکہ ان کا تو ماننا یہ ہے کہ اکرم نے خان سے بہت کچھ سیکھا کیونکہ خان کی ہی طرح انہوں نے کھلاڑیوں کو میدان سے باہر رہتے ہوئے جتنا دل چاہے اتنا دل کھول کر لطف اندوز ہونے کی اجازت دی، بس شرط یہ ہے کہ فٹنس متاثر نہ ہو اور اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے رہیں۔

آفریدی ان زیادہ تر پاکستانی کھلاڑیوں کی طرح شرمیلے نہیں جنہوں نے اپنی اپنی سوانح میں لکھا کہ یہ ’محظوظ ہونے‘ کا مطلب ہوتا کیا ہے۔ ہاں البتہ سابق کپتان مشتاق محمد کو ان کھلاڑیوں میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

آفریدی ’پارٹی کلچر‘ کا تذکرہ کرتے ہیں جس میں نائٹ کلبز اور بہت ساری خواتین شامل تھیں۔ مگر 2005ء میں انضمام الحق کپتان بن گئے اور اس دوران انہوں نے مذہبی رسم و رواج کے مظاہرے کے ذریعے غیر مستحکم ٹیم میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ آفریدی اس کوشش کی تعریف تو کرتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے پارٹیاں کرنے کا سلسلہ ترک کرنے کی وجہ یہ کوشش نہیں تھی۔ بلکہ وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے پارٹیوں میں جانا اس لیے چھوڑا کیونکہ مجھے پارٹیاں کرنا بہت زیادہ پسند تھا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ’شخصیت کافی لت آور‘ ہے اور حد سے زیادہ پارٹیاں کرنے کے باعث ان کی زندگی میں مسائل پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔

کتاب کا آخری دھواں دھار حصہ ایک دن سیاست میں قدم رکھنے کی ممکنہ خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ آفریدی جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف اور بینظیر بھٹو کے بارے میں کافی مثبت خیالات رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر باجوہ کرکٹ کی کافی زیادہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ وہ نواز شریف اور بلاول بھٹو کی تعریف بھی کرتے ہیں، خاص طور پر اس موقعے کے بعد جب پی سی بی چیئرمین اعجاز بٹ کے ساتھ ان کی تکرار جاری تھی اور بلاول نے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ان کی حمایت کی۔

آفریدی کے مطابق نواز شریف اور بلاول دونوں انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرنا چاہتے تھے، مگر آفریدی کو یہ بات زیادہ پسند نہیں آئی۔ تاہم اس کتاب میں وہ سب سے زیادہ تعریف موجودہ وزیرِاعظم عمران خان کی کرتے ہیں۔ وہ خان کو ایک کھلاڑی اور فلاح انسانیت کے لیے کوشاں شخصیت کے طور پر کافی پسند کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان ایک ایماندار آدمی ہیں۔ مگر آفریدی عمران خان کو یہ یاددہانی کروانے میں دیر نہیں کرتے کہ اگر ان کی اپنی پارٹی ’بے ایمان‘ ممبران سے بھری ہوئی ہو تو اس ایمانداری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

گیم چینجر ٹھیک ایسی سوانح ہے جس کی توقع آفریدی جیسے کردار سے کوئی بھی شخص کرنا چاہے گا۔ میں نے کتاب میں ہر بات پر کھل کر اپنی رائے دینے پر ان کی داد دی۔ وجاہت ایس خان نے جس انداز سے آفریدی کے اس طریقہ اظہار کو کاغذ پر اتارا ہے، میں نے اسے بھی قابل تعریف سمجھا۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ایک عام سا کرکٹ مداح بھی پڑھ کر محظوط ہوسکتا ہے۔

کیا ہی بھلا ہوتا اگر وجاہت خان آفریدی کی یادوں اور باتوں کی دیگر ذرائع سے تصدیق یا فیکٹ چیکنگ کرلیتے، کیونکہ تحریر میں تواریخ اور کرکٹ کے نتائج کئی جگہوں پر غلط درج ہیں۔

ندیم ایف پراچہ

بشکریہ ڈان نیوز

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: