ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکا کے ساتھ ’خطرناک‘ کشیدگی کا انتباہ دیتے ہوئے چین اور روس پر زور دیا ہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تہران اور واشنگٹن کے درمیان حالیہ دنوں میں تناؤ بڑھنے کے بعد امریکا نے مبینہ طور پر ایران کو دھمکانے کے لیے لڑاکا طیاروں کا ایک دستہ اور بی-52 بمبار خیلج میں بھیجا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک کثیرالجہت عالمی نظام کو تحفظ دینے اور یک طرفہ عالمی نظام سے بچنے کے لیے ایران اور چین کو ایک ساتھ سوچنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔
ایرانی وزیر خارجہ سے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ جوائنٹ کمپری ہینشن پلان آف ایکشن یا جے سی پی او اے کے نام سے معروف جوہری معاہدےکو محفوظ رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
خیال رہے کہ ایران نے چین روس،ج جرمنی، برطانیہ، فرانس اور امریکا کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے نتیجے میں تہران کے جوہری پروگرام کو روکنے کی صورت میں ایران پر لگی بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کردی گئی تھی۔
تاہم گزشتہ برس امریکی صدر سے اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اب تک عالمی برادری نے کوئی اقدام کرنے کے بجائے صرف بیانات ہی دیے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر عالمی برادری، جوہری معاہدے کے اراکین ممالک اور ہمارے دوست چین اور روس اس کو برقرار رکھنا چاہیں تو اس کے لیے ٹھوس اقدام اٹھانا ہوں گے تا کہ ایرانی عوام اس کےثمرات سے مستفید ہو سکیں۔
دوسری جانب امریکا نے اس حوالے سے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ایران کی انتہائی غلط اور دھوکہ دہی پر مبنی کوریج کرنے پر میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا دوسری جانب ٹرمپ کی کابینہ میں ہی ایران پر دباؤ ڈالنے کی شدت کے حوالے تنازع کی اطلاعات ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ صرف چین اور روس نے ایران کی حمایت اور جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے میں تعاون کیا جبکہ دیگر فریقین پر انہوں نے وقت پر ساتھ چھوڑ جانے کا الزام لگایا۔
خیال رہے کہ چین ان 8 عالمی خریداروں میں سے جنہیں امریکی پابندی سے قبل ایران سے تیل درآمد کرنے کی اجازت تھی جس میں بھارت، ترکی، جنوبی کوریا، تائیوان، اٹلی اور یونان شامل ہیں۔
واشنگٹن کی جانب سے ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے باوجود ایران نے اپنے بڑے صارفین خصوصاً چین کو براہِ راست طریقے سے تیل فروخت کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔