آئی ایم ایف کے بعد ’میثاقِ معیشت‘

یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ جب ہم نے بیل آؤٹ کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ ’اصولوں کی خلاف ورزی!‘ کا شور مچا رہے ہیں وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ پروگرام ناگزیر بن گیا تھا۔

مالیاتی ادارے کی عائد کردہ شرائط کسی کو پسند ہوں یا نہیں، مگر یہ طے ہے کہ یہ شرائط اور معاشی استحکام کا عمل دشواری سے بھرپور ہے۔ مگر کیا ہمارے پاس اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہے؟ معیشت اگر لڑکھڑاہٹ کا شکار ہو تو اسے ٹھیک کرنا ہی پڑتا ہے اور اس مقصد کے لیے سخت فیصلے درکار ہوتے ہیں۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان عملے کی سطح کا معاہدہ طے پاچکا ہے، تاہم اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اس حوالے سے حتمی اشارہ ملنا باقی ہے اور ابھی تک معاہدے کی تفصیلات کو منظرِ عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پاکستانی تاریخ میں سب سے سخت ترین آئی ایم ایف پروگرام ہوگا۔

اس بار شرائط کا تعلق صرف معیشت سے نہیں بلکہ سیاسی عمل میں بھی اس کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ آخری منظوری حکومت کی جانب سے چند مطلوبہ اہم اقدامات اٹھانے سے مشروط ہے۔ ایسی تجویز کا اشارہ بھی ملا ہے کہ اس پروگرام کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی کلیئرنس سے جوڑا جائے۔

پاکستان اگرچہ آئی ایم ایف کے پاس ایک درجن سے زائد بار جاچکا ہے، لیکن پروگرامز کو، جزوی طور پر یا مکمل طور پر عمل کرنے کی کچھ خاص اچھی ساکھ نہیں رکھتا۔ گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ہر حکومت آئی ایم ایف کے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام میں داخل ہوئی مگر معاشی صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔

جہاں آئی ایم ایف کی چند ہدایات بلاشبہ ہمیں زبردست طریقے سے متاثر کریں گی وہیں کئی ایڈجسٹمنٹس اور اصلاحات جن پر ہم اتفاق کرچکے ہیں ان پر ہمیں پہلے ہی عمل کرلینا چاہیے تھا۔ اس بات پر ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ آئی ایم ایف کے گزشتہ پروگرام کی تکمیل کے 3 سال بعد ہی ہم کیوں مالی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ ہم کبھی بھی وعدوں پر عمل پیرا نہیں رہتے۔

ہمیں اب بظاہر طور پر سب کچھ شروع سے شروع کرنا ہوگا وہ بھی پہلے سے زیادہ ناموافق شرائط کے ساتھ۔ ہمیں اس بات کی قطعی طور پر ضرورت نہیں تھی کہ آئی ایم ایف ہمیں یہ بتائے کہ کہ ہمارے ٹیکس بیس کو وسیع کرنا ہے، ریوینیو میں اضافہ کرنا ہے، سرکاری اداروں کے خسارے ختم کرنے ہیں اور سرکاری اخراجات میں کمی لانی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اسٹرکچرل اصلاحات لانے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ کیا ہم اس سے پہلے ہم یہ سب نہیں سن چکے؟ 9 ماہ کی حکمرانی کے دوران متعدد بار اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹنے والی پی ٹی آئی حکومت اب تک کوئی خاص امید جگا نہیں پائی ہے۔ نئی اقتصادی ٹیم بظاہر زیادہ تجربہ کار اور پروفیشنل تو نظر آسکتی ہے مگر سخت زمینی حقائق سے نمٹنے کے لیے اتنا کافی نہیں ہے۔

اس کا تعلق معیشت سے زیادہ سیاست سے ہے۔ کسی بھی معنی خیز اصلاحاتی عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ریاست کے ایک حد سے زیادہ سرگرم ادارے اور حکمران اشرافیہ ہیں۔ ان کے ذاتی مفادات اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت ان کے خلاف کوئی بھی اقدام نہیں اٹھا پاتی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان تمام مشکلات کا بوجھ متوسط اور غریب افراد پر پڑتا ہے۔

امیر اور طاقتور افراد سے ٹیکس اکٹھا کرنا حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ کسی بھی قسم کی اصلاحات کے خلاف اس حکمران اشرافیہ کی جانب سے زبردست مزاحمت سامنے آسکتی ہے جو خود کو حاصل مراعات ترک کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔

حکومت اس وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی کہ وہ ٹیکس کے جال کو بڑھائے گی، لیکن حکومت گزشتہ سالانہ بجٹ میں متعین کردہ اہداف کو بھی حاصل نہیں کرسکی، ایسے میں مجموعی ٹیکس ادائیگیوں کے حجم میں اضافہ تو دُور کی بات ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ خسارہ اب 300 ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حکومت کو نئی ٹیکس کاری اور وصولی کے بہتر نظام کے ذریعے پہلے کے مقابلے میں 700 ارب روپے کا اضافہ کرنا ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کو بار بار بدلنے سے وفاقی ریوینیو بورڈ کی کارکردگی بہتر نہیں ہونے والی۔ حتیٰ کہ اگر اس محکمے میں اصلاحات لانے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں تو بھی ان کے نتائج شاید فوری طور پر برآمد نہ ہوسکیں۔

گزشتہ حکومت نے جب ٹیکس ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی تو پی ٹی آئی نے اس کو ’کرپشن کو قانونی شکل‘ کے مترادف قرار دیا تھا، لیکن اب جب اپنی حکومت آئی تو پہلے کے مقابلے میں زیادہ رعایتوں کے ساتھ اس اسکیم کو متعارف کروا دیا گیا ہے۔

گزشتہ کئی اسکیموں کے بعد اب اس تازہ اسکیم کو لے کر یہ ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ اس سے بڑی تعداد میں کالی معیشت کو مرکزی دھارے میں لانا ممکن ہوگا، لیکن مختلف حکومتوں کی جانب سے متعارف کردہ اسکیمیں لوگوں کی چھپی ہوئی دولت ظاہر کروانے اور اسے ٹیکس کے جال میں لانے میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہیں۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ لوگ اس ترغیبی مراعت پر ردِعمل دیتے ہیں یا نہیں۔

حکومت کے لیے سب سے مشکل چیلنج غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی ہوسکتا ہے۔ عمران خان کی کفایت شعاری پر مبنی مہم مالی صورتحال پر کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں کر پائی ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری اداروں کے ساتھ زیادتی کو بند کیا جائے، اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہر ایک ادارے کے اضافی اخراجات میں کمی کی جائے۔

ملکی بجٹ کا چوتھا بڑا حصہ دفاعی اخراجات کی صورت ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ابھی تک یہ ایسا موضوع ہے جس پر بات نہیں کی جاسکتی، لیکن اب ضروری ہے کہ اس معاملے پر ناصرف بات کی جائے، بلکہ اس پر نظرِثانی بھی ضروری ہے۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سیکیورٹی ایک اہم ترین معاملہ ہے، لیکن معیشت کی مضبوطی سے بھی تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بحران کا شکار معیشت ممکنہ طور پر سب سے بڑا سیکیورٹی خطرہ بن سکتی ہے۔ بیرونی امداد پر انحصار ہونے کی وجہ سے ہماری خودمختاری پر تو ویسے بھی سمجھوتا ہوچکا ہے۔ لہٰذا سیکیورٹی پر آنچ آئے بغیر اس مد میں کتوٹی کی گنجائش بہرحال موجود رہتی ہے۔ کفایت شعاری کی مہم مسلح افواج تک پہنچنی چاہیے۔

یہ تو صاف ہے کہ وفاقی حکومت تنہا اس مالی بحران کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ 18ویں ترمیم کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ بن چکی ہے کیونکہ ترمیم کے تحت صوبوں کو زبردست حد تک مالی اور انتظامی خودمختاری حاصل ہے۔ ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے سیاسی ہم آہنگی کا قیام ضروری ہے۔

اقتصادی اور مالی طور پر ہمارے بُرے حالات کی ایک اہم وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ ایک مخلوط حکومت کے لیے مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنا اور ان پر عمل درآمد کروانا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ صورتحال کو سنبھالنے کی خاطر کچھ وقت کے لیے مالی سہارا تو فراہم کرے گا لیکن اگر ہمیں بحران سے نکلنا ہے اور ترقی کی طرف گامزن ہونا ہے تو اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔

پی ٹی آئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف آئی ایم ایف پروگرام بلکہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کرنے کے لیے حزبِ اختلاف کو اپنے ساتھ بٹھائے۔ حکومت کے لیے سیاسی استحکام کے بغیر اقتصادی استحکام کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔ لڑائی جھگڑے کے موجودہ ماحول نے سیاسی غیر یقینی کی صورتحال کو سنگین حد تک بڑھادیا ہے جس کا براہِ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ کہ وزیرِاعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے اسٹیٹس مین شپ کا مظاہرہ کریں اور انہیں چاہیے کہ وہ سابق وزیرِاعظم شاید خاقان عباسی کی جانب سے ’میثاق معیشت‘ پر بین الجماعتی مذکرات کے آغاز کی پیش کش کو قبول کرلیں۔

زاہد حسین

یہ مضمون 15 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: