کرپشن، رشوت اور ایک ڈائری

وہ ہر لمحے ایک ڈائری اپنے ساتھ رکھتے ، اس ڈائری میں وہ اپنے خاص لوگوں کے بینک میں کھولے جانے والے اربوں روپے کے جعلی اکاؤنٹس، کروڑوں اور اربوں روپے مالیت کے ملک کے اہم ترین شہروں میں ہزاروں پلاٹوں، سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات میں اربوں روپے قرض دے کر معاف کرنے کی تفصیل، سیاست دانوں کو خاص مقصد کے لیے ساتھ دینے کی صورت میں نوٹوں سے بھرے بیگ تقسیم کرنے کا ریکارڈ اور خدا جانے کیا کیا راز تحریر ہوتے تھے۔

اس ڈائری کی جان سے زیادہ حفاظت کرنا بتاتا تھا کہ اس میں اس سے زیادہ کچھ اہم راز بھی لکھے ہوتے تھے۔ یہ ہے ایک جونیئرکلرک سے بینک کے سربراہ اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے تک پہنچنے والے یونس حبیب کے عروج کی کہانی جو گزشتہ دنوں طویل علالت کے بعد دو بیٹیوں ، ایک بیٹے اور بے شمار کہانیوں کو چھوڑ کر اور نا جانے کتنے اہم راز اپنے دل میں لیے انتقال کر گئے۔

انہوں نے ان بے شمار اہم کہانیوں اور رازوں کو اپنی مخصوص ‘ڈائری’ میں لکھا ہوا تھا جو ان کی کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے پہلی دفعہ گرفتاری کے بعد غائب کر دی گئی۔ یونس حبیب بینکنگ سرکل اور سیاسی حلقوں میں انتہائی متنازع شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ان کی موت کے ساتھ سازشوں اور غلط کاموں کے بے شمار واقعات کا ‘سیاہ باب’ ختم ہو گیا۔ لیکن یونس حبیب کی “خصوصی خدمات” سے مستفید ہونے والے بے شمار افراد آج بھی زندہ ہیں اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ( ایف آئی اے )ان میں سے کچھ کی غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کے بارے میں تحقیقات کر رہا ہے جنہوں نے 1990 کے عام انتخابات میں مبینہ طور پر رقم لی ۔

اپنی ڈائری میں وہ ہر اس شخص کا نام لکھتے تھے جسے انہوں نے کسی کام کے لیے پیسے یا رشوت دی اور نام کے سامنے وہ رقم بھی تحریر کر دیتے تھے۔

مشہور مہران بینک اسکینڈل وہ واحد جعلی کھاتوں اور رقم کی غیر قانونی تقسیم کا کیس ہے جس میں 1990 ء کے انتخابات میں حصہ لینے والوں میں ریاست رقم تقسیم کرنے میں براہ راست ملوث پائی گئی۔ اس کہانی کا اصل کردار ، یونس حبیب تو مر گیا لیکن یہ سچی کہانی اب بھی اصغرخان کیس کی صورت میں زندہ ہے۔

“بھائی، میں نے سب کو پیسہ دیا اور سب میری ڈائری موجودہے،” یہ بات انہوں نے مجھے اس وقت بتائی تھی جب پہلی دفعہ ان کا نام اخبارات میں شائع ہوا اور مجھے ان سے ملاقات کا موقع ملا ۔ میں بعد میں بھی اپنے صحافیوں دوستوں کے ساتھ ان سے جیل میں ملتا رہا جہاں ان کو مالی دھوکہ دہی کے کیس میں 10 سال کی سزا ہوئی۔ اس کے بعد ان کا تین یا چار سال بعد ہی جیل کی قید سے آزاد ہو جانا بھی ایک دلچسپ کہانی ہے کہ کس طرح قید کے دوران انہوں نے جیلر کو پیسے دے کر یہ سہولت خریدی۔

اپنی ڈائری میں وہ ہر اس شخص کا نام لکھتے تھے جسے انہوں نے کسی کام کے لیے پیسے یا رشوت دی اور نام کے سامنے وہ رقم بھی تحریر کر دیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ “بھائی ، حساب پورا رکھا ہے ، اب کوئی مانے یا نہیں مانے ۔”

یونس حبیب ان تنازعات کے بارے میں انٹرویو دینے سے ہمیشہ بچنا چاہتے تھے ۔ جیل سے باہر آنے کے بعد وہ آئی آئی چندریگر روڈ پر اپنے دفتر میں بیٹھا کرتے تھے ۔ ان کا یہ معمول کچھ سال پہلےتک رہا لیکن صحت کی خرابی کے باعث وہ اسے جاری نہیں رکھ سکے۔

بہت سے لوگ ان کو ‘بینامی اکاؤنٹس’ اور متوازی بینکنگ کے موجد کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

میں نے 1994 سے اس مسئلہ پر بہت کچھ لکھا ، اس دوران یونس حبیب کی کچھ سیاستدانوں سے ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی ہاتھ آئی۔

جسمانی طورپر کمزور مگر ذہنی طور پر بلکل تندرست اور تیز ، یہاں تک کہ اس وقت کے سیکریٹری داخلہ واجد رانا کی ان کے خلاف رپورٹ کو نظر انداز کر دیا گیا تھا اور یونس حبیب کو رہا کر دیا گیا۔ واجد رانا کی رپورٹ میں تفصیل سے بیان کیا گیا تھا کہ کس طرح یونس حبیب نے دھوکہ دہی اور جعل سازی کر کے اپنے خون کے دو مختلف گروپس کے مشکوک نمونے استعمال کرتے ہوئے اپنی سزا میں کمی کر وائی ۔ کیا کوئی عقل مند شخص اس پر یقین کر ے گا کہ ایک ہی انسان کے خون کے دو مختلف گروپس ہوں اور ان کو جیل انتظامیہ نا صرف تسلیم کرے بلکہ اس کی بنیاد پر سزا ہی ختم کروا دے۔ یونس حبیب ایک ایسے ہی کردار کا نام تھا خواہ جیل میں ہو یا جیل کے باہر، وہ ایک نہایت شاطر اور طاقتور انسان تھا۔

1994 میں جب اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے ان کو مہران بینک کے ذریعے بے نامی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے اہم شخصیات میں رقم تقسیم کرنے کے معاملے میں نامزد کیا تو اس کے بعد یونس حبیب کا نام ان کے تمام غلط کاموں کی وجہ سے بدنامی کی شکل میں مشہور ہوا ۔

1990 ء کے انتخابات میں حصہ لینے والے سیاست دانوں اور دیگر اہم شخصیات میں نوٹوں سے بھرے بیگ تقسیم کرنے کی جعلسازی کے کھیل کو بعد میں تحریک استقلال کے سربراہ مرحوم ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے عدالت میں چیلنج کیا ۔ گو کہ یونس حبیب اور اصغر خان انتقال کر گئے لیکن یہ کہانی آج بھی اصغرخان کیس کی شکل میں زندہ ہے۔

ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان سعید الزمان صدیقی کو بھی ایک خط لکھا۔ جسٹس سعید الزمان صدیقی نے مجھے سے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ کیس کے دوران رقم کی تقسیم کا الزام درست ثابت ہوا اور ان کے حکم پر رقم دینے اور قبول کرنے والے افراد کے خلاف مقدمہ قائم ہوا تھا، لیکن 12 اکتوبر، 1999 کو جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹانے کے حکومتی فیصلے کے نتیجے میں ہونے والی فوجی کارروائی کی وجہ سے وہ اس مقدمے کا فیصلہ نہیں سنا سکے تھے۔

تاہم مقدمہ شروع ہونے کے بعد سرد خانے میں تو ڈالا جا سکتا ہے لیکن وہ ختم نہیں ہوتا۔ اصغر خان اور یونس حبیب دونوں ہی نہیں رہے لیکن ان کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں جو ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اب بھی ایک پراسرار بات ہے کہ جب ایف آئی اے نے کراچی ایئر پورٹ سے یونس حبیب کو حراست میں لیا تو ان کی یہ مشہور ڈائری کہاں گم ہو گئی اور اسے تلاش کیوں نہیں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یونس حبیب اپنی اس ڈائری میں پیسے پیسے کا حساب لکھا کرتے تھے بلکہ وہ اہم شخصیات سے ہونے والی بات چیت بھی ٹیپ کیا کرتے تھے اور ان کا آڈیو ریکارڈ بھی ان کے پاس تھا۔

90 کی دہائی میں ان کا ایک دوست یونس حبیب کو بینکنگ کے شعبے کا سندھ کے سابق وزیراعلی جام صادق علی کہا کرتے تھے۔

میں نے 1994 سے اس مسئلہ پر بہت کچھ لکھا ، اس دوران یونس حبیب کی کچھ سیاستدانوں سے ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی ہاتھ آئی۔ آج لگ بھگ 19 برس بعد ایک بار پھر ہمارے بینکوں کے نظام اور اس سے منسلک تنازعات، بینامی اکاؤنٹس اور غیر قانونی ذرائع سے سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرنے جیسے سنگین سوال اٹھائے گئے ہیں اور اس معاملے سے جڑے بڑے نام بھی سامنے آئے ہیں۔

مہربان بینک اسکینڈل سے بینامی اکاؤنٹس کا معاملہ کس طرح مختلف ہے ؟ اس سوال کا جواب نیب اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ، جے آئی ٹی تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس تحقیقات میں یہ معلوم کرنے کی کوشش ہوئی کہ کیا ریاست کے کچھ اہم عہدے دار 1990 کے عام انتخابات میں ملوث تھے۔

یونس حبیب کون تھا ؟ ایک بینک کا جونیئر کلرک کس طرح زونل چیف بن گیا اور اس کے بعد ایک ہی چھلانگ میں صوبائی سربراہ کے عہدے پر پہنچ گیا۔ پھر براہ راست اور بلواستہ تعلقات استعمال کر کے مہران بینک بنا لیتا ہے؟ جب میں نے یونس حبیب کی زندگی کے بارے میں تحقیق شروع کی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بھارتی گجرات کے باٹوا میمن برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے میٹرک کرنے کے بعد حبیب بینک میں ملازمت شروع کی اور پھر طاقتور حلقے سے اپنے زبردست تعلقات اور حمایت سے اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

90 کی دہائی میں ان کا ایک دوست یونس حبیب کو بینکنگ کے شعبے کا سندھ کے سابق وزیراعلی جام صادق علی کہا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح جام صادق علی برسراقتدار اشرافیہ کی خوشنودی کے کے لیے ان کا ہر قانونی اورغیر قانونی کام بلا جھجک کیا کر تے تھے اسی طرح یونس حبیب بھی طاقتور شخصیات کے بینک سے متعلق ہر جائز اور نا جائز کام بلا خوف کیا کرتے تھے اور اگر میں غلط نہیں کہہ رہا تو “مہران بینک” کا افتتاح بھی جام صادق ہی نے کیا تھا۔ یونس حبیب نے مبینہ طور پر جام کو بھی “پیسہ “دیا اور رقم کے سامنے ان کا نام بھی اپنی ڈائری میں لکھ کر لیا۔

حبیب کے اس دور کی تمام شخصیات سے ذاتی تعلقات تھے جو اہم ترین عہدوں پر فائز تھے۔ ان شخصیات میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان ، آرمی کے سربراہ جنرل اسلم بیگ، وزیر اعظم میاں نواز شریف اور غلام مصطفی جتوئی وغیرہ سے شامل تھے۔

میری رائے میں نیب ہو یا نہیں لیکن ایک غیر جانبدارانہ حقیقی احتساب محض خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔

1994 میں معروف صحافی ادریس بختیار نے ایک انگریزی ماہ نامے کی مہران بینک اسکینڈل پر شائع ہونے والی سرورق کہانی میں انکشاف کیا کہ “1991 میں، اسٹیٹ بینک کو حبیب بینک سے ایک رپورٹ موصول ہوئی، جس میں یونس حبیب کے خلاف سنگین الزامات شامل تھے جو سندھ کے زونل چیف تھے۔ شکایت میں حبیب بینک انتظامیہ نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یونس حبیب کی بدعنوانی کی وجہ سے بینک کو 4 سے 6 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو ا۔ لیکن یونس حبیب کے طاقتور شخصیات سے تعلقات کی وجہ سے اسٹیٹ بینک نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ۔ اس بینکر کے خلاف تادیبی قانونی کارروائی کے برعکس اسے مہران بینک کا سربراہ بنا دیا گیا۔

کوئی نہیں جانتا کہ اصغر خان کیس کا حتمی نتیجہ کیا ہو گا جس میں ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے سیاسی شخصیات میں تقسیم کیے گئے ۔ اصغر خان کیس یونس حبیب کے ملک کی اہم ترین شخصیات کے لیے کیے گئے غیر قانونی جرائم کی ایک معمولی سی مثال ہے جس میں انہوں نے سیکڑوں سیاسی اور غیر سیاسی طاقتور اشرافیہ میں رقم اور قیمتی اشیاء کے “تحائف” تقسیم کیے اور ان کی مکمل تفصیل اپنی ڈائری اور آواز کی ریکارڈنگ کی صورت میں محفوظ کر لی۔

آپ جو بھی کہیں کہ نیب اور معیشت ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتی یا کرپشن اور ترقی ایک ساتھ نہیں چل سکتی لیکن احتساب کے عمل کی حیثیت ایک تصوراتی سوچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

1990 ء کے عام انتخابات میں یونس حبیب کا کردار مہران بینک سے اہم شخصیات میں رقم کی تقسیم سے بڑھ کر پاکستان میں “بدعنوانی کے باپ ” کا ہے جس نے رشوت ستانی اور غیر قانونی طریقوں سے سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کے جدید طریقے متعارف کرائے۔ یونس حبیب کی زندگی کی کہانی نے پاکستان کے بینکاری اور مالیاتی نظام میں نقائص کو بے نقاب کرنے کے ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر صارفین کے اعتبار اور اعتماد پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ آج بھی کچھ بینکوں اور بینکاروں کی ملی بھگت سے ‘بینامی اکاؤنٹس’ کھولنے اور ان کے ذریعے سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے اور بیرون ملک سے پاکستان منگوانے کے غیر قانونی کھیل کو غیر قانونی سرمایہ منتقلی اور بدعنوانی سے جوڑا جا رہا ہے۔

کوئی بھی نہیں جانتا کہ یونس حبیب کی سلطنت، ان کی ان گنت کوٹھیوں ، اور زرعی زمین سمیت دیگر اراضی کا کیا ہو گا ۔ کیوں کہ ہمیں تو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ پنجاب میں اربوں روپے کی کوآپریٹو اسکیموں کے علاوہ کراچی میں جعلی سرمایہ کاری کمپنیوں کا دھوکہ دہی کے ذریعے عوام کو اربوں روپے کا چونا لگانے والوں کا کیا ہوا؟

سب اصغرخان کیس کے فیصلے کے منتظر ہیں ۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے عدالت عالیہ سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کیس کو داخل دفتر کر دیا جائے کیوں کہ اس میں مزید تحقیق کرنا ممکن نہیں رہا۔ تاہم سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی درخواست رد کرتے ہوئے ادارے کو ایک مہینے کی مزید مہلت دے دی ہے تاکہ وہ ان تمام افراد کے خلاف کارروائی کر ے جنہوں نے پیسہ دیا ہے اور ان افراد کے خلاف بھی جنہوں نے رقم وصول کی اور اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کروائے ۔ اس مقدمے میں یونس حبیب سمیت کئی اہم گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جنہوں نے رقم تقسیم کرنے کے ثبوت فراہم کیے اور گواہی دی ایسی صورت حال میں کیس کا داخل دفتر کرنے کی درخواست کے بجائے خود ایف آئی اے کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ اس مقدمے کے فیصلے کے ساتھ ہی کم از کم اس بات کا پتہ چل جائے گا کہ ملک میں انتخابات پر کیسے اثرانداز ہوا گیا اور کس طرح دھاندلی کی یا کروائی گئی ۔

یونس حبیب اب نہیں رہے اور ان کی موت کے ساتھ ہی تاریخ کا ایک سیاہ باب بھی بند ہوگیا لیکن اندھیرے اب بھی باقی ہیں۔ اگر کوئی ‘یونس حبیب کے عروج کی داستان پڑھ لے تو اس کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہو گا کہ پاکستان میں رشوت ستانی اور بد عنوانی کا پودا کس نے لگایا ، اس کی آبیاری کس کس نے کی اور یہ بھی کہ بدقسمتی سے رشوت نے ریاست کے ایک اہم ستون کی شکل اختیار کر لی ہے کیوں کہ غریب عوام کا کیا چھوٹا اور کیا بڑا، کیا قانونی اور کیا غیر قانونی، کیا جائز اور کیا ناجائز ۔۔ کوئی بھی کام رشوت دیے بغیر نہیں ہوسکتا جیسے رشوت لینا جرم نہیں بلکہ ان کا حق ہو۔ اس گھناونے کھیل میں جائز اور قانونی کام کروانے والے ہی نقصان میں رہتے ہیں کیوں کہ ناجائز اور غیر قانونی کام کروانے والوں کا رشوت دینے میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔

میری رائے میں نیب ہو یا نہیں لیکن ایک غیر جانبدارانہ حقیقی احتساب محض خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔ آپ جو بھی کہیں کہ نیب اور معیشت ایک دوسرے کے ساتھ نہیں چل سکتی یا کرپشن اور ترقی ایک ساتھ نہیں چل سکتی لیکن احتساب کے عمل کی حیثیت ایک تصوراتی سوچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات نئے نہیں ہیں بلکہ یہ ناسور برسوں سے دیمک کی طرح ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ اس کا اظہار مرحوم جوش ملیح آبادی نے اپنی نظم “رشوت” میں بھی کیا جس کے کچھ بند تحریر کر رہا ہوں جو موجودہ حالات میں بھی بلکل سچ معلوم ہوتے ہیں۔

بشکریہ مظہر عباس

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: