پراسرار اور خاموش بیانیہ

پنجاب کے گورنر چوہدری سرور کا کہنا ہے کہ ” اگر جہانگیر ترین ہی کو سب کچھ کرنا ہے تو ہم کیا چھولے بیچنے آئے ہیں” ۔ ان کے اس بیان سے تحریک انصاف کی صفوں میں ہونے والی رسہ کشی “دن کی روشنی ” کی مانند عیاں ہو گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس “ملاکھڑے” میں دولت مند اور طاقتور گروپ ہی کامیاب ہو گا اور اس لحاظ سے جہانگیر ترین کے حمایت کرنے والوں کا پلڑا بھاری ہے اور ان کو دوسرے گروپ پر واضح برتری حاصل ہے۔ جبکہ میرا یہ ماننا ہے کہ اس “ملاکھڑے” میں جو بھی زور آور ثابت ہو لیکن شکست کا بوجھ تحریک انصاف کو ہی برداشت کرنا ہو گا ۔ یوں بھی کابینہ میں حالیہ تبدیلی دیکھ کر میرا یہ کہنے کو دل چاہ رہا ہے کہ”تبدیلی آ نہیں رہی ۔۔۔ تبدیلی آ گئی ہے۔”

اس تبدیلی کا تخلیق کرنے والا جو کوئی بھی ہے اسے یہ معلوم ہے کہ اہم حکومتی امور اور وزارتیں “ٹیکنو کریٹس” کے حوالے کرنے کے لیے صدراتی نظام ہی ضروری نہیں بلکہ یہ کام پارلیمانی نظام میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔ پھر سیاسی دور حکومت میں یہ تجربہ کرنے کا ایک فائدہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر اس کے نتائج اچھے نکلے تو ٹھیک لیکن اگر نقصان ہوا تو اس کی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہو گی ۔

بہرحال تحریک انصاف کے اندر ہونے والی گروہ بندی نے پارٹی کی مجموعی صورت حال کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ اس گروہ بندی میں سب سے خطرناک جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان ہونے والی طاقت کی جنگ ہے۔ اس رسہ کشی نے حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی سوداگری کی قوت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے جس میں ق لیگ اور جنوبی پنجاب محاذ سر فہرست ہیں۔

خان صاحب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو شدت سے یہ احساس ہے کہ اگر پارٹی کے اہم رہنماؤں کے درمیان طاقت کی جنگ جاری رہی تو اس کا براہ راست فائدہ میاں شہباز شریف کو ہو گا جنہیں ملک کے کچھ مقتدر حلقے صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے سب سے بہتر اور باصلاحیت امیدوار سمجھتے ہیں۔

پھر جیسا کہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران جوش خطابت میں کہہ دیا کہ ” اس حکومت کو ایک آنکھ سے دیکھیں تو مشرف کی کابینہ دکھائی دے گی اور اگر دوسری آنکھ سے دیکھیں تو پیپلز پارٹی کی کابینہ نظر آتی ہے”۔ مشرف اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ کابینہ کے نکتے پر کسی اور وقت بات ہوگی لیکن یہاں بس اتنا کہوں گا کہ زرداری دور حکومت ہی میں مشرف کو گارڈ آف آنر کے ساتھ انتہائی باعزت انداز میں ایوان صدر سے رخصت کیا گیا تھا۔ شاید یہ مشترکہ کابینہ اسی دوران وجود میں آئی تھی اور اب بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ باقی ہے۔

پاکستانی سیاست کا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو کبھی ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں رہا جس کی ایک وجہ ان کا اپنے اقتدار میں آنے کے لیے ہر درست اور غلط طریقے سے حکومت کو گرانا ہے۔ ماضی سے حال تک یہی ہوا اور شاید مستقبل میں بھی سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگ ہی کھنچتے رہیں کیوں کہ یہ رہنما “کرسی اور اقتدار” کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کے اصول پر آج بھی عمل کر رہے ہیں ۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ جب سے نواز شریف خاندان نے “خاموش بیانیہ” یا باالفاظ دیگر ” خفیہ این آر او” کی پراسرار پالیسی اپنائی ہے اس وقت سے ان کی مشکلات میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ بالخصوص نواز شریف کی سزا کے بعد ضمانت پر رہائی کو ایک ایسی انہونی روایت قرار دیا جا رہا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ تاہم وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ خان صاحب اس صورت حال سے بلکل خوش نہیں ہیں ۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ اس تمام معاملے کے پس پردہ وجوہات اور افراد کی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں اور ان کو اس بات کی کوئی پروہ نہیں کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ صورت حال اداروں کے درمیان تصادم کا اشارہ دے رہی ہے؟

کوئی نہیں جانتا کہ اس “پراسرار اور خاموش بیانیے” کا خالق کون ہے مگر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے ایک بیان کے دو نکات قابل غور ہیں اور وہ یہ کہ یہ شیخ رشید نے خود شہباز شریف کو “این آر او” یا قومی مصالحتی معاہدے کی درخواست کرتے دیکھا ہے ۔ دوسرے یہ کہ تحریک انصاف میں ایک گروپ چاہتا ہے کہ شریف خاندان کو خاموشی سے “این آر او” یا خصوصی رعایت دے دی جائے۔ تاہم مسلم لیگ نواز اس کی تردید کر تی آ رہی ہے۔ ن لیگ کا موقف ہے کہ ان کو رعایت عدالت سے مل رہی ہے نا کہ تبدیلی سرکار سے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شریف خاندان کو حکومت کی جانب سے جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے اور کسی قسم کے “این آر او ” کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کےمطابق انہیں یقین ہے کہ شریف براداران اور زرداری خاندان کے اربوں روپے غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک منتقل کرنے شواہد کی موجودگی میں سزا سے بچنا ممکن نہیں اور بہت جلد یہ دونوں خاندان سیاست سے باہر ہو جائیں گے۔

سوال یہ بھی اہم ہے کہ وہ”پراسرار خاموش بیانیہ” کیا ہے جس نے ایک انتہائی جارہانہ انداز رکھنے والے نواز شریف کو “خاموش ” رہنے پر مجبور کر دیا ہے؟ اور اب میاں صاحب کسی ادارے یا حکومت کے خلاف محاز آرائی سے گریز کرنے لگے ہیں ۔لہذا ابھی ان سے پی ٹی آئی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور نا ہی نواز شریف حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو معاملات طے کرنے کے لیے مکمل اختیار دے دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنے یا حزب اختلاف کی جماعتوں سے بات کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور مسلم لیگ نواز کا سڑکوں پر احتجاج کرنے کا امکان نہیں۔

تاہم وزیر اعظم عمران خان میاں نواز شریف کو کسی بھی طرح واپس جیل بھیجنا چاہتے ہیں اور وہ یہی خواہش زرداری خاندان کے بارے میں بھی رکھتے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خان صاحب ان دونوں رہنماؤں سے ہر صورت مقابلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن خان کے کچھ قریبی “دوست” ایسا نہیں چاہتے۔ وہ “دوست” میاں شہباز شریف کو ن لیگ کے طاقتور متبادل قائد کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔ تاہم وہ “دوست ” بھی سنہء 2000 یا 2007 جیسے کسی “قومی مصالحتی معاہدے” کے مخالف ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت تو نہیں مل سکے گی تاہم ان کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ وہ کم از کم عید تک اپنے گھر پر ہی رہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کی لندن قیام کی وجہ علاج اور ذاتی مصروفیات کے علاوہ کچھ اور بھی ہے۔

وزیراعظم عمران خان شریف برادران اور زردای خاندان کو مسلسل مشکل حالات میں رکھنے کے لیے ان کے خلاف نئے مقدمات قائم کروانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ پولیس، وفاقی تحقیقاتی ادارے “ایف آئی اے” اور انٹیلیجنس بیورو” آئی بی” کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے ان اداروں کو شریف برادارن اور زرداری خاندان کی بدعنوانیوں اور ملکی سرمایہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کرنے کی مستند معلومات اور ثبوت جمع کرنے کا کام سونپا ہے۔

وزیراعظم کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان، میاں نواز شریف کی “خاموشی” کے مقابلے میں شہباز شریف کی سیاسی چالوں سے زیادہ فکرمند ہیں کیوں کہ خان کی غیر معمولی پشت پناہی کے باوجود تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکی ہے۔ ساتھ ہی ان کے حمایت یافتہ صوبائی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔

ان حقائق کے باوجود مسلم لیگ ” نواز کی”خاموش بیانیہ” کی پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ اگر عمران خان ان کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ نہیں کرتے اور صورت حال براہ راست تصادم کی طرف نہیں جاتی تو نواز لیگ کا حکومت مخالف تحریک چلانے یا گلی محلوں اور سڑکوں پر احتجاج کرنے کا امکان نہیں ہے۔

نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم صفدر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اس سال کے آخر تک ہو جائے گا اور یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ کیا دونوں یا صرف مریم صفدر قومی سیاسی دھارے میں واپس آتی ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ بھی “خاموش بیانیے” کی پالیسی اپنا کر پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائیں گی اور کسی دوسرے ادارے کے خلاف بیان بازی سے بھی گریز کریں گی۔

لہٰذا امکان یہی ہے کہ مسلم لیگ نواز پارلیمان میں رہتے ہوئے وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کو مسلسل مشکل وقت تو ضرور دیتی رہے گی لیکن وہ حکومت مخالف اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی۔ اگر اس نے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں بنے والے کسی بڑے “جمہوری اتحاد” میں شامل ہونے کا فیصلہ بھی کیا تو وہ محض علامتی ہی ہو گا۔

یہ منظرنامہ حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے پریشان کن ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان کا سیاسی اتحاد بھی حکومت گرانے میں ناکام رہتا ہےہو تو کیا آصف علی زرداری بھی نواز شریف کی طرح “خاموش بیانیے”کی پالیسی پر عمل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا کوئی مختلف حکمت عملی ترتیب دے کر یہ ثابت کر پاتے ہیں کہ ” ایک زرداری ۔۔ سب پر بھاری”؟

پیپلز پارٹی کے رہنما نجی ملاقاتوں اور محفلوں میں کھل کر شریف برادران کے لیے “این آر او” اور ان کے لیے “کچھ نہیں” کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور تک احتجاجی ریلی اور اپنی لندن سے واپسی کے بعد یہ جان لیا ہے کہ پارٹی کے اہم رہنما نواز شریف کی حمایت میں ایک بھرپور تحریک چلانے میں پوری دلجمعی سے تیار نہیں ہیں جبکہ ان میں سے چند کو طویل مدت قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے ساتھ ناقابل برداشت دباؤ کا خوف بھی تھا۔

کہتے ہیں کہ پارٹی کے ووٹ بینک کو بچانے اور اسے متحد رکھنے کے لیے شہباز شریف کا بڑے بھائی کو “خاموش” رہنے پر آمادہ کرنے میں فیصلہ کن کردار تھا اور بظاہر ایسا سچ بھی لگتا ہے کیوں کہ ان کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی اور نواز شریف کی مشکلات میں مسلسل اور واضح کمی دکھائی دی۔ ساتھ ہی شہباز شریف کی پالیسی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو گرانا نہیں چاہتے یا کسی مجبوری کے باعث ایسا کر رہے ہیں ۔

وزیراعظم عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی ملک کی داخلی اورخارجی کمزور پالیسیوں کے علاوہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ہونے والا ہوشربا اضافہ، برآمدات میں کمی اور افراط زر میں اضافہ ہونے کے باوجود ان کی حکومت کو حزب اختلاف کی طرف سے کسی پریشان کن احتجاجی تحریک کا فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔

تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر مسلم لیگ نواز یا شریف برادران اپنی “خاموشی” برقرار رکھتے ہیں اور پیپلز پارٹی جمیعت علماء اسلام فضل الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر کے ساتھ مل کر حکومت مخالف تحریک کا آغاز کرتے ہیں تو شاید وہ حکومت کے لیے کچھ مشکل پیدا کر سکیں لیکن نواز لیگ کے بغیر وہ ایک فیصلہ کن تحریک نہیں چلا سکیں گے۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اگر بدعنوانی، غیرقانونی طریقے سے سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے اور جعلی اکاؤنٹس جیسے مقدمات میں آصف علی زرداری، فریال تالپر اور دیگر اہم رہنما جیل چلے جاتے ہیں تو یہ اتحاد ایک بھر پور تحریک چلانے میں کس قدر کامیاب ہوگا؟

جو بھی اس “خاموش چال” کا خالق ہے اس نے متحدہ حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ اس صورتحال میں کیسے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں کیوں کہ وہ اس “پراسرار خاموش این آر او” کی سخت مخالفت کرتے رہے ہیں اور خان صاحب نے جوابی وار کرتے ہوئے زرداری اور شریف برادران کے خلاف نئے مقدمات قائم کرنے کے ساتھ اپنی ٹیم کو بھی ان کے خلاف مزید متحرک کر دیا ہے تاکہ “خاموش این آر او” کے تاثر کو ختم کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران اور ان کی ٹیم ایک طرف اور پوری حزب اختلاف دوسری طرف ہے جن کے مابین اب کھلی محاذ آرائی بس ایک چنگاری کی منتظر ہے اور ماچس “پراسرار طاقت” کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت اور متحدہ حزب اختلاف کے درمیان ہونے والی جنگ کے اثرات اور اس کے نتائج سے ہم سب آگاہ ہیں۔ لہٰذا میرا تجزیہ کہتا ہے کہ یہ نا تو وزیر اعظم عمران خان کے لیے اچھی خبر ہوگی اور نا ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے لیے۔ اس کا فائدہ صرف” پراسرار ہاتھ” کو ہی ہو گا۔

مظہر عباس

بشکریہ جنگ

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: