جہانگیر ترین نے غیر رسمی طور پر نائب وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا

جہانگیر ترین نے غیر رسمی طور پر نائب وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا

تحریر: انصار عباسی

ایماندار اور پارسا نہ ہونے پر کسی بھی سرکاری یا سیاسی عہدے کیلئے سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین نے معیشت، طرز حکمرانی اور اصلاحات کے معاملات پر عمران خان کے غیر رسمی نائب کا اہم کردار سنبھال لیا ہے۔ وزیراعظم آفس کے باخبر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ جہانگیر ترین کا وزیراعظم سیکریٹریٹ میں آنا جانا معمول بن چکا ہے۔ نہ صرف وہ وزیراعظم کو معیشت اور اصلاحات جیسے بڑے معاملات پر مشورے دینے والی اور پس منظر میں کام کرنے والی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں بلکہ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ارباب ارشاد کی زیر قیادت ہونے والے اجلاسوں میں بھی شریک چیئرمین کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں۔

وزیراعظم کی اصلاحات کیلئے تشکیل دی گئی ٹیم اور ارباب شہزاد کی زیر قیادت ہونے والے اجلاس میں جہانگیر ترین کی شرکت اس قدر زیادہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جہانگیر ترین کیلئے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ کو لوگوں کو دکھانے کیلئے رکھا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین ماہرین کی مخفی ٹیم کی قیادت کر رہے ہین جو غیر رسمی طور پر معاشی امور پر وزیراعظم کے تھنک ٹینک کے طور پر کام کر رہی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی نظر نہ آنے والی ٹیم میں دیگر افراد کے ساتھ تین بینکار اور شبر زیدی شامل ہیں جنہیں اب چیئرمین ایف بی آر کے عہدے کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے جہانگیر ترین کوئی عہدہ نہیں رکھ سکتے لیکن رسمی کردار کے بغیر وہ عملاً ڈپٹی پرائم منسٹر بنے ہوئے ہیں۔ جہانگیر ترین کے فائدے اور دوسروں کیلئے نقصان کی بات یہ ہے کہ تمام فیصلے وہ کر رہے ہیں لیکن انہیں ان کے غیر رسمی کردار کی وجہ سے احتساب کے دائرے میں نہیں لایا جا سکتا۔

وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جہانگیر ترین کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے اور نہ ہی وہ نائب وزیراعظم ہیں۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین زرعی فارمنگ اور مویشیوں کے امور کے ماہر ہیں اور اسی لیے وہ ان موضوعات پر ہونے والے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے سیاسی اجلسوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ صحافیوں کے ساتھ وزیراعظم کی پیر کے روز ہونے والی بات چیت میں بھی جہانگیر ترین نمایاں تھے۔

اگرچہ وزیراعظم کا صحافیوں کے ساتھ تبادلہ خیال بلدیاتی حکومتوں کے موضوع پر ہوا لیکن وزیراعظم کی دونوں جانب بیٹھے افراد میں پنجاب اور کے پی کے وزیر اعلیٰ، ان کے متعلقہ وزراء اور جہانگیر ترین شامل تھے۔ وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں رد و بدل کے دوران اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹانے سے چند روز قبل جہانگیر ترین نے ایک ٹی وی انٹرویو میں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور فیصلہ کے عدم صلاحیت پر ڈھکے چھپے انداز میں اسد عمر پر تنقید کی تھی۔ جہانگیر ترین کے بیان سے پی ٹی آئی کے اندر اور باہر کے لوگ حیران ہوئے تھے۔

آزاد امیدواروں کو حکمران جماعت میں شامل کرانے کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے قیام میں اگرچہ جہانگیر ترین نے فعال کردار ادا کیا تھا لیکن وہ ماضی میں کبھی کبھار ہی سرکاری اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے۔ کئی ماہ قبل جب میڈیا نے یہ خبر جاری کی کہ نا اہل سابق رکن اسمبلی جہانگیر ترین نے سینئر سرکاری عہدیداروں کے اجلاس کی صدارت کی تو اس پر کئی اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔

13؍ ستمبر کو یہ خبر آئی تھی کہ جہانگیر ترین نے لائیو اسٹاک ایمرجنسی ورکنگ گروپ کے اجلاس کی صدارت کی۔ اس گروپ کو حکومت کے ابتدائی 100؍ روزہ ایجنڈا کے دوران لائیو اسٹاک سیکٹر کو بہتر بنانے کیلئے ٹھوس منصوبہ پیش کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ اس ورکنگ گروپ کا آئندہ اجلاس اکتوبر میں ہوگا۔ بعد میں جب جہانگیر ترین کو کابینہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دے کر وزیراعظم کو زراعت کے معاملے پر بریفنگ کیلئے بلایا گیا تو حکومت کو اس پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن اب، ذرائع کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین مکمل طور پر فعال ہو چکے ہیں اور اکثر ارباب شہزاد کے بلائے گئے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں۔

جہانگیر ترین کو گزشتہ سال 15؍ دسمبر کو آئین کے آرٹیکل 1-62 ایف کے تحت غلط بیانی پر نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ یہ وہی شق ہے جس کے تحت اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو پاناما پیپرز کے معاملے پر تاحیات نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ نے 15؍ دسمبر کے فیصلے پر نظرثانی کیلئے اپیل دائر کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: