کریم بھائی تھوڑا ہمارا بھی خیال کریں

’’کریم ‘‘ بھائی اس جانب بھی توجہ دیں
کریم کی سروس ’’گو کریم ‘‘ تک تو ٹھیک گاڑیاں بھی اچھے معیار کی ہیں اور ڈرائیور بھی پڑھے لکھے ہی محسوس ہوتے ہیں اور سفر بھی ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ترقی یافتہ ملک میں کسی چمچماتی سڑک پر آپ کی گاڑی رواں دواں ہے جبکہ ’’گو منی ‘‘ دو دفعہ استعمال کی اور دونوں دفعہ دو نئے تجربات ہوئے ۔’’گومنی ‘‘ میں ذیادہ تر مہران گاڑیاں ہیں جن کی ’’کریم ‘‘ میں رجسٹریشن کرتے ہوئے نہ تو گاڑی کی اوورحال چیکنگ کا کوئی شاید سلسلہ نہیں کیونکہ کمپنی نے اپنی کمائی میں اضافے کے لئے قریب المرگ گاڑیوں کو بھی سواریوں کو ذلیل کرنے کی اجازت دے دی ہے پچھلے سفر میں رات کے بارہ بجے کو وقت تھا جب ’’کریم ‘‘ نے گاڑی کو ایک جھٹکا دیا اور ’’اوہ‘‘ کی آواز نکالی میں نے کہا
’’کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
اس نے بتایا کہ جناب گاڑی کے کلچ کا تار ٹوٹ گیا ہے اور گاڑی اب یہاں سے آگے نہیں جا سکتی آپ یہیں اتر جائیں ‘‘
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے سنسان سڑک پر دوبارہ گاڑی کی تلاش میں نے مدد طلب نظروں سے اس کی طرف دیکھا
’’بھائی جی کم از کم کسی نزدیکی سٹاپ تک تو پہنچا دو جہاں سے گاڑی مل سکے ‘‘ اس نے کہا ’’ممکن تو نہیں لیکن میں کوشش کرتا ہوں ‘‘
پھر اس نے جھٹکے دیتے ہوئے نزدیکی اسٹاپ سے تقریباً ایک کلومیٹر پیچھے گاڑی کھڑی کر دی موبائل پر سفر کے اختتام کا میسج بھیجا اور کہا تین سو روپے دے دیں ‘‘ میں بغیر کچھ کہے اس کو تین سو روپے دیئے اور پیدل اسٹاپ کی جانب بڑھ گیا جہاں پھر دو سو روپے میں ٹیکسی کرکے گھر پہنچا
اس اتوار دوبارہ ’’گو منی ‘‘ بک کر بیٹھا ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی تو اس نے ہچکولے کھانے شروع کر دیئے ’’یہ کیا ہو رہا ہے بھائی ۔۔۔؟‘‘
وہ سر الائنمنٹ کا مسئلہ ہے بس اب ٹھیک کرا لوں گا ‘‘۔
ابھی اس نے تھوڑا ہی سفر کیا تھا کہ گاڑی نے جھٹکا لیا میں نے جلدی سے غور سے درائیور کے چہرے کی طرف دیکھا کہ مبادا وہی ڈرائیور تو نہیں اس نے شرمندگی سے کہا ’’وہ سر گیس ختم ہو گئی ہے ‘‘
میں کیا کہہ سکتا تھا تھوڑی دور ایک گیس اسٹیشن تھا وہاں سے اس نے پندرہ منٹ میں گیس بھروائی میں نے اپنی تسلی کے لئے پوچھا ’’ڈرائیور بھیا یہ جو پندرہ منٹ ’]ویٹنگ چارجز ‘‘ کس نے ادا کرنے ہیں میں نے یا آپ نے ‘‘
’’آپ کیوں ادا کریں گے کمپنی دیکھ رہی ہے کہ گاڑی پمپ پر پندرہ منٹ کھڑی رہی سو یہ چارجز کمپنی ڈرائیور کو ڈالے گی ‘‘
چھبیس منٹ کا سفر ’’گو منی ‘‘ نے پنتالیس منٹ میں طے کیا ڈرائیور نے اختتامی میسج بھیجا تین سو تین روپے مانگے میں نے پیسے دیئے اس نے واپسی کی راہ لی آج ای میل پر اپنے سفر کا ’’بریک اپ ‘‘ چیک کیا تو ’’ویٹنگ چارجز‘‘ سارے کے سارے مسافر کو ہی ڈال دیئے گئے ہیں
’’کریم ‘‘ اور ’’اوبر ‘‘سروس مہیا کرنے والوں سے گزارش ہے آپ تو ’’گوگل ‘‘ پر بیٹھے ہیں پاکستان کے زمینی حقائق پر بھی نظر رکھیں صرف اپنا کمیشن کھرا نہ کریں بلکہ مسافروں کے حقوق کا تحفظ بھی آپ کی ذاتی ذمہ داری ہے جیسے ’’گو بزنس ‘‘۔’’گو پلس ‘‘ اور ’’گو ‘‘ میں اچھی گاڑیاں ہیں اسی طرح ’’گو منی ‘‘ میں صرف اچھی کنڈشن کی نہیں نئی گاڑیوں کو جگہ دیں ۔اور ان گاڑیوں کی گاہے بگاہے چیکنگ کو بھی یقینی بنائیں کیونکہ ’’یہ ہے پاکستان اپنا ‘‘ورنہ ابھی سے ہمارے پاکستانی ڈرائیورز کی ’’کلاس‘‘ نہ لی گئی تو کام کلچ کی تار اور گیس کے ختم ہونے سے گاڑیوں کے انجن فیل ہونے تک پہنچ سکتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: