نئے پاکستان کے نئے وزیرِ اعظم کو درپیش پہلے سو دن کے چیلنجز

’نئے پاکستان‘ کی نئی صبح جب عمران خان اس ملک کے وزیراعظم کا حلف اٹھا رہے تھے۔ پاکستان کے عوام دم سادھے دیکھ رہے تھے آنے والے دنوں کی طرف۔

نئے پاکستان کے سپورٹرز میں تو ولولہ ہے ہی لیکن عمران کے نقاد بھی نظریں لگائے بیٹھے ہیں کہ پاکستان کو بدلنے کا نعرہ لگانے والے اب ملک میں کیسی تبدیلی لے کر آتے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران الزام تراشی اور گالم گلوچ خوب ہوتی رہی اور اس تلخی کی ایک دلیل تو ہمیشہ یہی دی جاتی ہے کہ جلسے کا ماحول اور ہوتا ہے اور حکومتی ایوانوں کا ماحول اور۔

بدلے ہوئے ماحول کی ایک جھلک پوری دنیا 26 جولائی کو دیکھ چکی ہے۔ جب ایک تقریر میں عمران خان نے اپنی فتح کا اعلان کیا۔ وہ سفید کرتا شلوار وہی گلے میں پاکستان تحریک انصاف کے رنگوں کا مفلر اور وہی بنی گالہ کا کمرہ اگر کچھ بدلہ ہوا تھا تو عمران خان کا لب و لہجہ۔

ان کی تقریر کو تقریباً سب ہی حلقوں میں اچھی نظر سے دیکھا گیا۔ ان کے حامی اور مخالفین اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ اس دن وہ عمران نظر آئے جو پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملے۔

حکومت بنانے کی جوڑ توڑ۔ ماضی کے مخالفوں کو آج کے اتحادی بنانے کا سفر بھی تحریک انصاف نے قریب ایک ہی دن میں طے کر لیا۔

پنجاب کی پیچیدہ صورتحال کو لے کر میڈیا میں کافی لے دے ہوتی رہی اور سب سے بڑی تنقید یہی رہی کہ پاکستان تحریک انصاف کا ہوم ورک ہی مکمل نہیں تھا۔

اب جب حکومت سازی کے مرحلے مکمل ہوتے جا رہے ہیں سب کی توجہ پاکستان تحریک انصاف کے سو دن کے پلان پر ہے۔

جس میں پی ٹی آئی نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بدلنے وفاق کو مضبوط کرنے سوشل سروسز اور گورننس کو بہتر بنانے زراعت کی ترقی پانی کی کمی کو دور کرنے اور بلوچستان میں مفاہمت کا عمل شروع کرنے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے اور عام آدمی کا معیار زندگی بہتر کرنے سمیت ایسے وعدے کیے ہیں جو پورے ہوگئے تو پاکستان جنت نہ سہی جنت نظیر بن سکتا ہے۔

لیکن یہ ہوگا کیسے؟ جب یہ سوال میں رکھا پاکستان تحریک انصاف کے رہنما چوہدری محمد سرور کے سامنے تو ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے سو دن کے منصوبے کو میڈیا میں صحیح سمجھا ہی نہیں گیا۔

چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ سو دن میں عمران خان کی حکومت اور گورننس کی سمت ہی طے ہو گی اور یہ سب وعدے جو کیے گئے ہیں ان کے پورے ہونے میں وقت لگے گا۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کسی بھی حکومت کے پہلے سو دن تو ہنی مون کے ہیں۔ اور انھی سو دنوں میں نئی حکومت کے لیے عوام کی رائے بنتی ہے۔

’اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف سو دنوں میں لوگوں میں خیرسگالی اور مثبت رائے پیدا کر سکے گی۔ اور کیا عوام میں یہ تاثر پیدا کر سکیں کے کہ وہ درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔‘

سیاسی امور کے ماہر رسول بخش کہتے ہیں کہ جن معاملات کے بارے میں پی ٹی آئی نے اپنے منصوبے میں بات کی ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کا ماننا ہے کہ عام طور پر تو جماعتیں محض عہدے بانٹنے سے متعلق ہی تیاری کرتی ہیں نہ کہ گورننس کرنے کی۔

’پی ٹی آئی نے پہلے ہی قومی مسائل کی نشاندہی کر لی ہے۔ حکمت عملی ان کے پاس موجود ہے۔ عوام کے ان پر اعتماد اور ان کے تبدیلی کے نعرے کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے منصوبے پر عمل کریں۔ وہ اس کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

عمران خان ماضی میں آزادانہ خارجہ پالیسی کے بھی بہت بڑے حامی رہے ہیں امریکہ ہو یا انڈیا سب ہی کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر ان کی تنقید بے رحمانہ رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے دور حکومت میں وہ مختلف ملکوں سے تعلقات کو کیسے آگے بڑھائیں گے۔

اپنی انتخابی مہم میں وہ نوازشریف کو ’مودی کا یار‘ قرار دے چکے ہیں۔ لیکن اپنی پہلی ہی تقریر میں انھوں نے انڈیا کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر وہ ایک قدم اٹھائیں گے تو پاکستان تعلقات کی بہتری کے لیے دو قدم اٹھائے گا۔

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ پی ٹی آئی کے چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم امریکہ اور انڈیا کے ساتھ اعلان جنگ کر دیں گے۔`

چوہدری سرور کہتے ہیں کہ تحریک انصاف برابری کی سطح پر ملکوں سے تعلقات قائم کرے گی اور کسی کے سامنے جھکے گی نہیں اور انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتی رہے گی۔

اب برابری کی پی ٹی آئی کے پاس کیا تعریف ہے۔ اس کا ادراک تو کچھ عرصے بعد ہی ہو سکے گا۔ لیکن جس اقتصادی بحران میں عمران خان عنان اقتدار سنبھالنے جا رہے ہیں غیر ملکی امداد کے بغیر معیشت کی بحالی ناممکن ہو گی۔ وہ اس مقصد کے لیے کن ملکوں پر زیادہ اعتماد اور انحصار کریں گے یہ تو آنے والے دنوں میں ہی واضح ہو گا۔

لیکن سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ آپشنز موجود نہیں۔

انھیں معاملات کو احسن طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے اپوزیشن کا تعاون بھی چاہیے ہوگا اور دوسرے ملکوں کا بھی۔ ورنہ نہ تو معاشی ترقی ہو سکے گی اور نہ ہی قانون سازی۔

رسول بخش رئیس کے سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان اپنے سو دن کے منصوبے پر عمل نہ کر سکے تو ان کے ووٹرز میں مایوسی پیدا ہو گی۔

’کچھ معاملات تو عمران کے اپنے ہاتھ میں ہوں گے لیکن کچھ کے لیے انھیں اپوزیشن کا تعاون درکار ہو گا اور اپوزیشن کا تعاون ان کے اپنے سیاسی فائدے یا نقصان سے مشروط ہو گا۔‘

عمران خان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام انھیں روایتی سیاستدان نہیں سمجھتے۔ بلکہ ایک ایسے شحض کے طور پر جانتے ہیں جو کسی بات کی ٹھان لے تو پھر دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے کر کے دکھاتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاست کی مجبوریاں اور حکمرانی کی مصلحتیں کیا ان کے اس تاثر کو قائم رہنے دیں گی؟

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: