عورت ! تیرے کتنے روپ ، تیرے کتنے نام

بانو آپا کی ایک تحریر کا اقتباس ہے،’’لوگوں نے، عورت کا کردار ماپنے کے کتنے پیمانے بنا رکھے ہیں۔ عورت کا لباس، عورت کی آواز، عورت کی شکل و صُورت، ہاتھ پائوں، اُس کے پکے کھانے، ہاتھ کی بنی گول روٹی، ہاتھوں پر چڑھا مہندی کا رنگ، اُس کا خاندان، اُس کے ماں باپ، اُس کی فیملی، معاشی حالات، تعلیم، اُس کا مستقبل۔ کوئی اچھی سے اچھی عورت بھی بے شک سب مرحلے پار کرجائے، مگر کہیں نہ کہیں رہ ہی جاتی ہے۔ سوچتی ہوں، مرد کا کردار ماپنے کا کیا پیمانہ ہے، اُس کا صرف اچھی ملازمت کرنا ہی اُس کے سب عیبوں پر پردہ کیوں ڈال دیتا ہے…..؟؟‘‘ شاید اس لیے کہ ہم لاکھ ’’حقوقِ نسواں، حقوقِ نسواں‘‘ کا راگ الاپتے رہیں، درحقیقت یہ معاشرہ، ازل سے مرد ہی کا معاشرہ ہے۔ اُس مرد کا، جس نےدینِ اسلام سے پہلے تو عورت کو زرخرید لونڈی، پیر کی جوتی سمجھا ہی، مگر جب اسلام نے خواتین کے حقوق متعیّن کرکے، انہیں عزّت و تکریم کے اعلیٰ درجے تک بھی پہنچادیا، تب بھی اُس کی مردانگی، جواں مَردی اور حاکمانہ مزاج، عورت کو اپنے مقابل کھڑا دیکھنے کا روادار نہیں۔ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنے کی اجازت دینا تو دُور، نقشِ پا پہ قدم رکھنے کی اجازت بھی بہ مشکل ہی ملتی ہے۔ مستثنیات ضرور ہیں، بے شک کچھ خواتین فرائض سےیک سَر غفلت برتتے ہوئے اپنے جائز حق سے بھی زیادہ حقوق سے مستفید ہورہی ہیں، لیکن اکثریت آج تک چکّی کے دو پاٹوں ہی میں پِس رہی ہے۔ اور پھر وہی بانو آپا والی بات، اِس تمام تر عدم مساوات، نا انصافی، ظلم و جبر، زور زبردستی کے باوجود بھی ’’عورت‘‘ کے لیے ہر معاملے ہی میں معیارات و پیمانے نہ صرف جدا، بلکہ بہت کڑے بھی ہیں، تب ہی تو ’’حقوقِ نسواں‘‘ کے بلندبانگ نعرے کے بعد، اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ’’می ٹو‘‘ اور ’’ٹائمز اَپ‘‘ جیسی تحریکیں سَر اٹھانے لگی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ امسال ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کے لیے بھی ’’press for progress‘‘ کا تھیم جاری کیا گیا ہے اور ساتھ جو تصویر منسلک کی گئی ہے، وہ بھی گویا ’’بس، بہت ہوگیا‘‘ کی عملی تفسیر ہے۔ پھر دنیا بھر کی خواتین کو متحرک و مہمیز کرتے ہوئےباقاعدہ دبائوڈالنے، اپنا حق طاقت، زور زبردستی سے لینے پر اکسایا جارہا ہے کہ اگر کچھ حاصل کرنا ہے، تو سب کو مل کر پوری قوّت سے آواز اٹھانی، بھرپور جدوجہد کرنی ہی ہوگی۔

عورت ! تیرے کتنے روپ ، تیرے کتنے نام

کشور ناہید کی ایک نظم ہے ؎ ’’گھاس بھی مجھ جیسی ہے…..پائوں تلے بِچھ کر ہی زندگی کی مُراد پاتی ہے…..مگر یہ بھیگ کر کس بات کی گواہی بنتی ہے…..شرم ساری کی آنچ کی…..کہ جذبے کی حدّت کی…..گھاس بھی مجھ جیسی ہے…..ذرا سَر اٹھانے کے قابل ہو…..تو کاٹنے والی مشین…..مخمل بنانے کا سودا لیے…..ہموار کرتی رہتی ہے…..عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے…..تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو…..نہ زمیں کی نمو کی خواہش مرتی ہے…..نہ عورت کی…..میری مانو تو وہی پگڈنڈی بنانے کا خیال درست تھا…..جو حوصلوں کی شکستوں کی آنچ نہ سہ سکیں…..وہ پیوندِ زمیں ہوکر…..یوں ہی زور آوروں کے لیے راستہ بناتے ہیں…..مگر وہ پَرکاہ ہیں…..گھاس نہیں…..گھاس تو مجھ جیسی ہے‘‘۔ واقعی، گھاس تو عورت جیسی ہے، سخت، کھردری، ناہم وار اور کبھی کبھی تو بنجر زمینوں سے بھی اچانک ہی پھوٹ پڑتی، سر اٹھالیتی ہے اور پھر کیسے ہی ناموافق حالات ہوں، کوئی لاکھ پیروں تلے کچل دے، روندتا گزر جائے، جب، جہاں، جتنی جگہ ملتی ہے، قدم جماتی، پَھلتی پھولتی، پھیلتی چلی جاتی ہے۔ بے آب و گیاہ دھرتی کو سرسبز و شاداب، سبزہ زار کردیتی ہے۔ عورت کسی رُوپ میں ہو، ماں، بہن، بیوی، بیٹی…..کسی رنگ میں ہو، بہت بھولی، سادہ و مسکین، باشعور و سمجھ دار، قبول صُورت، انتہائی حسین و جمیل، صلح جُو، غصّہ وَر، گھریلو، ملازمت پیشہ، بہرطور قابلِ احترام، باعثِ عزّت و تکریم ہے۔ ایک تو فطرتاً صنفِ نازک ہے۔ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی، ٹیڑھی ضرور ہے، مگر مرد کی طرح قوی الجثّہ، مضبوط اعصاب کی مالک نہیں۔ طبیعتاً جذباتی، زُود رنج، نرم دل، حسّاس ہونے کے سبب جلد ہمّت ہار دیتی، تھک جاتی ہے، لیکن اگر کبھی کچھ کرنے کی ٹھان لے، تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اُس کے حوصلوں کو شکست نہیں دے سکتی۔ وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’عورت ہونا قطعاً آسان نہیں۔ اس کے لیے ایک مرد کی طرح سوچنا، عورت کی طرح عمل کرنا، کم عُمر لڑکی کی طرح نظر آنا اور گھوڑے کی طرح کام کرنا ضروری ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’ایک عورت ہی اپنی اصل طاقت کو جانتی، پہچانتی ہے۔ وہ موم ہے یا پتّھر اس کا فیصلہ وہ خود کرتی ہے، کوئی دوسرا اُس کے لیے یہ فیصلہ نہیں کرسکتا اور اگر کبھی وہ ہتھیار ڈالتی بھی ہے، تو اپنی مرضی و منشا سے، کسی جبر و اکراہ کے تحت نہیں‘‘۔

عورت ! تیرے کتنے روپ ، تیرے کتنے نام

خواتین کا عالمی دن (8مارچ) چند ہی دنوں کی مسافت پر ہے، تو بس، اسی مناسبت سے اس بار ہم نے اپنی بزم خواتین ہی کے کچھ مختلف رُوپ سروپ، رنگ و انداز سے مرصّع کی ہے۔ ہمیں یقین ہے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آپ کو ہمارا یہ یک سر جداگانہ سا انداز بےحد بھائے گا۔ شوکت پردیسی کی ایک نظم ’’عورت‘‘ غالباً ایسے ہی کسی موقعے کے لیے ہے ؎مجسّم عِشوہ و اندز بھی ہے…..مگر عورت جہانِ راز بھی ہے…..ستم آرائیاں تسلیم لیکن…..نہایت مخلص و دَم ساز بھی ہے…..اگر کوتاہ نظری ہو نہ حائل……تو شاید مرکزِ پرواز بھی ہے…..کہیں افسانہ عشق و محبّت…..کہیں رودادِ سوزوساز بھی ہے…..اسی سے رونقِ ہر انجمن ہے…..یہی ہر فتنے کا آغاز بھی ہے…..جہاں ہے سر بہ سجدہ عشق اب تک…..یہی وہ بارگاہِ ناز بھی ہے…..فضائے الجزائر جس پہ قرباں…..اِک ایسی پُراثر آواز بھی ہے…..غرض عورت جہانِ آب و گِل میں…..زمانہ بھی، زمانہ ساز بھی ہے۔ اور پھر پرویز شہریار کی اس نظم کے بھی کیا ہی کہنے ؎ عورت!تیرے کتنے روپ…..تیرے کتنے نام…..محبّت کے اس بے کراں سفر میں…..کتنے پڑائو، کتنے مقام…..کبھی کلی، کبھی پھول…..اور کبھی مُرجھائی ہوئی پنکھڑی…..کبھی انار، کبھی ماہتاب اور کبھی پھلجڑی…..تخلیق کا منبع، شکتی کا خزینہ تیری ذات…..محورِ لامتناہی سلسلہ حیات و ممات…..شفقت، محبّت، ایثار و وفا سب تیرے رُوپ…..ایک فقط چاہت کا عطیہ، تیرا یہ ہیرے کا روپ…..تیرے ہی دَم سے رنگ و بوئے کائنات…..از ازل تا ابد آدم کی تو ہے شریکِ حیات…..اے عورت!ایسا تیرا روشن کردار ہے…..محبّت کے اس بے کراں سفر میں…..تجھ سے ہی زندگی استوار ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: