28 جولائی کے بعد کئے گئے فیصلے کالعدم

سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی صدارت کیلئے بھی نااہل اور 28 جولائی2017 کو نااہلی کے بعد کئے گئے فیصلے کالعدم قرار دیدیئے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 17 کے تحت جماعت بنانے کا حق قانونی پابند یو ں ، پبلک اخلاقیات سے مشروط ہے، الیکشن ایکٹ 2017 کو آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کی روشنی میں پڑھا جائے گا، پارٹی سربراہ کیلئے بھی رکن پارلیمنٹ کی شرائط ہونگی،عدالت نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن نوازشریف کا نام بطور پارٹی صدر مسلم لیگ ن ریکارڈ سے ہٹا دے، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے نواز شریف کا نام ہٹادیا،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کو انتخابی اصلاحات 2017کیس کا مختصر فیصلہ جاری کیا،تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔جیو ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات 2017 کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 62، 63 پر پورا نہ اترنے والا نااہل شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت نہیں کرسکتا۔فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف مسلم لیگ نواز کی صدارت کے لیے نااہل ہوگئے ہیں جنہیں پاناما کیس کے فیصلے میں آئین کی دفعہ 62، 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ساڑھے 4 بجے دوبارہ آئیں گے اور بتائیں گے کہ مختصر حکم دینا ہے یا فیصلہ کرنا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے تحریر کیے جانے والے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کا پارلیمنٹ کے امور میں بڑا مرکزی کردار ہوتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 203 اور232 کو آرٹیکل 62 اور63 اے کے ساتھ پڑھا جائے گا، آرٹیکل 62 اور63 کے تحت اہلیت نہ رکھنے والا شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا۔ ایسا شخص آرٹیکل 63 اے کے تحت پارٹی سربراہ یا کسی حیثیت میں کام نہیں کرسکتا۔فیصلے میں نواز شریف کی جانب سے بطور مسلم لیگ نواز کے صدر تمام اقدامات، احکامات اور ہدایات کالعدم قرار دی گئیں۔نواز شریف کے 28 جولائی کی نااہلی کے بعد بطور پارٹی سربراہ تمام احکامات کالعدم قرار دیدیئے گئے جبکہ ان کی طرف سے بطور پارٹی سربراہ جاری دستاویزات بھی کالعدم دی گئیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن نوازشریف کا نام بطور پارٹی صدر مسلم لیگ ن ریکارڈ سے ہٹا دے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف تمام اپیلیں منظور کی جاتی ہیں۔اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دوسرے ملکوں میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مختلف صورتحال ہے، پارٹی سربراہ کے گرد ساری چیزیں گھوم رہی ہوتی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہماری جان بھی اپنے لیڈر کے لئے حاضر ہے، یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور پارٹی سربراہ اہم ہوتا ہے اور اسی کے گرد ساری چیزیں گھومتی ہیں۔اس موقع پر وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف عدالت کا فیصلہ موجود ہے، کیا میں غلط کام کرنے کے لئے اپنا بنیادی حق استعمال کرسکتا ہوں اور مفروضے پر پوچھ رہا ہوں کیا ڈرگ ڈیلر یا چور پارٹی لیڈر بن سکتا ہے۔فروغ نسیم نے کہا کہ قانون میں اخلاقی اقدار بنیادی نکتہ ہے، سیاسی جماعت ڈی ریگولیٹ نہیں رہ سکتی اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو سوال بھی نہیں پوچھ سکتا، ذہن میں اہم سوال آرہا تھا۔ نمائندہ جنگ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے الیکشن ایکٹ2017 کے خلاف دائر تمام آئینی درخواستیں منظور کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مسلم لیگ (ن)کی صدارت کیلئے بھی نااہل قرار دے دیا ہے اورالیکشن کمیشن کو ا ن کا نام بطور صدر ،پاکستان مسلم لیگ ن ہٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے نااہلی کےبعد ان کی جانب سے بطور پارٹی صدر کئے گئے تمام تر اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے ، جس کے مطابق نواز شریف کی جانب سے جاری کیے گئے تمام سینیٹ ٹکٹ بھی منسوخ ہوگئے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کو کیس کا مختصر فیصلہ جاری کیا، جسے چیف جسٹس نے تحریر کیا ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میںجاری کیا جائے گا، فاضل عدالت نے 5صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میںتما م آئینی درخواستیں منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پارٹی سربراہ کیلئے بھی رکن پارلیمنٹ کی شرائط ہونگی، جس شخص کو عدالت آئین کے آرٹیکل 62(1)F اور 63کے تحت عوامی عہدہ کیلئے نا اہل قرار دیتی ہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی سربراہی کیلئے بھی نااہل ہوجاتاہے اور اس پر یہ پابندی اس کی نااہلیت کا فیصلہ جاری ہونے کے دن سے ہی تصور کی جاتی ہے ،عدالت نے قرار دیا ہے کہ نواز شریف کو 28جولائی 2017کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد سے ان کی جانب سے مسلم لیگ ن کے سربراہ کے طور پر کئے گئے تمام تر اقدامات، احکامات، ہدایات اور جاری کی گئی دستاویزات کی روز اول سے ہی قانون کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہے ، الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ تمام متعلقہ ریکارڈ سے نواز شریف کا نام بطور صدر مسلم لیگ ن ہٹا دیا جائے ، عدالت نے قرار دیا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے، عوام اپنی طاقت کا استعمال عوامی نمائندوں کے ذریعے کرتے ہیں، جبکہ ریاست عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کارلاتی ہے جہاں مذہب کی روشنی میں لوگوں کو جمہوری اصولوں کے تحت مکمل طورپرآزادی ،مساوات،تحمل و بردباری اورسماجی انصاف حاصل ہو، لوگوں کو بنیادی حقوق دستیاب اورقانون کے سامنے سب برابرہوں، یکساں سیاسی و معاشی مواقع اورانصاف ملتاہو ،اظہاررائے کی آزادی ہو ،مذہب اورعقیدے کی آزادی ہو،قانون کااحترام اورعوام کی بھلائی ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: