نظریاتی سیاست کا خاتمہ اور سیاسی چمچے

تحریر: عمیر سولنگی

ایک وقت تھا جب سیاسی جماعتوں میں سینئر اور وفادار کارکنان کو اہمیت دی جاتی تھی، ایک وقت تھا جب نظریاتی سیاسی کارکنان کی بڑی تعداد اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے مگر اب دور بدل چکا ہے، اب سیاسی چمچوں کا زمانہ آگیا ہے اور جو چمچہ زیادہ شور کرتا ہے یعنی زیادہ تعریفیں کرتا ہے، وہی آج کی سیاست میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔

آج ملک میں نظریاتی سیاسی کارکن تو موجود ہیں مگر سیاسی جماعتوں میں ان کی حیثیت اب کچھ بھی نہیں، موجودہ سیاست میں دو طرح کے لوگ ہی سیاست کرسکتے ہیں، ایک وہ جو چمچہ گیری میں مہارت رکھتے ہوں اور دوسرے وہ جو بہت پیسے والے ہوں۔

سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی ہر سیاسی جماعت کا کارکن اپنے لیڈر کو خوش کرنے کیلئے چمچہ گیری میں مصروف ہے، کچھ تو اپنے لیڈر کی شان میں اتنی لمبی چوڑی کہانیاں لکھتے ہیں کہ پڑھو تو ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہوجائے۔

سوال یہ ہے کہ سیاسی کارکنان نے چمچہ گیری کا راستہ کیوں اپنایا؟ شاید اس لئے کہ آج کے سیاسی رہنماء بھی ان سیاسی کارکنان کو ترجیح دیتے ہیں جو ان کی تعریفیں کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی چمچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، سیاسی چمچوں کی تعداد میں روز بروز اضافے کی ایک بڑی وجہ نظریاتی سیاست کا خاتمہ بھی ہے۔

اب سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ نظریاتی سیاست کا خاتمہ کیسے ہوا؟، ایک وقت تھا جب سیاسی جماعتوں میں کارکنان کو بولنے کی اجازت تھی، سیاسی کارکنان اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے تھے، پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے تھے یہاں تک کہ اپنے قائدین سے بھی اختلاف کرتے تھے اور ایسے ہی سیاسی کارکنان کو نظریاتی کارکنان کہا جاتا ہے جو اپنے فائدے یا نقصان کا نہیں سوچتے بلکہ اپنی قیادت اور اپنی سیاسی جماعت کے فائدے اور نقصان کے بارے میں سوچتے ہیں۔

نظریاتی سیاست کا خاتمے کی ایک وجہ یہ بھی کہ جب سیاسی کارکنان نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کیلئے جیلیں کاٹیں، قربانیاں دیں، یہاں تک کہ جانیں بھی نچھاور کردیں ان کو یا ان کے لواحقین کو عزت تک نہ ملی، جیلیں کاٹنے والوں اور قربانیاں دینے والے سے زیادہ اہمیت ان کی ہے جو تعریفوں کے پل باندھ سکتے ہوں۔

ایک غریب نظریاتی کارکن اپنی پارٹی کو اپنی زندگی کے 30 سال دیتا ہے، پیسہ بھی خرچ کرتا ہے، ہر قسم کی قربانیاں بھی دیتا ہے مگر جب اس کو نوازنے کا وقت آتا ہے تو اس نظریاتی کارکن کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور فوقیت دی جاتی ہے اس امیر زادے کو جو چند ماہ پہلے دوسری جماعت سے آیا ہوتا ہے، شاید سیاسی رہنماؤں کا یہی رویہ نظریاتی سیاست کے خاتمے کا باعث بنتا جارہا ہے۔

یہ سچ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں میں اپنی اپنی جماعتوں کے نظریات کو ختم کیا جارہا ہے، اس وقت پاکستان کی سیاست میں پیسے کی عمل داری زیادہ ہوگئی ہے، آج کوئی بھی سیاسی رہنماء کسی بھی نظریاتی کارکن کی خدمات کو نہیں پوچھتا، آج کل سیاسی جماعتوں میں نظریاتی کارکنان کی قربانیوں کی قدر کوئی نہیں کرتا بلکہ ان لوگوں کی قدر زیادہ ہوتی ہے جن کے وسائل زیادہ ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: