آئندہ کسی کو جرم کی ہمت نہ ہو ،زینب کیس کو مثال بنانا ہوگا

جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزدہ کے ساتھ“ میں میزبان نے اپنے تجزیئے میں کہا ہےکہ آئندہ کسی کو جرم کی ہمت نہ ہو زینب کیس کومثال بنانا ہوگا،زینب کیس میں کئی سبق ہیں جن سے ہمیں سیکھنا ہوگاتاکہ آئندہ ایسے بھیانک جرم نہ ہو سکیں، صرف پانچ دن کے اندر نقیب اللہ محسود قتل کیس میں اہم پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئےمزید کہاہے کہ بالآخر چودہ دن بعد پنجاب پولیس کا دعویٰ ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ زینب کا قاتل پکڑا گیا جس نے نہ صرف زینب بلکہ گزشتہ دو برس میں قصور میں زیا د تی اور قتل کے دیگر سات واقعات میں ملوث ہونے کااعتراف بھی کیا اور ڈی این اے رپورٹس بھی یہی بتاتی ہیں، یعنی کہ ایک سیریل کلر پکڑا گیا جو قصور میں یہ سارے واقعات کررہا تھا، اس پورے واقعہ میں جذبات کے ساتھ ہمارے لئے کچھ سبق بھی ہیں، منگل کو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور ملزم کی گرفتاری کا اعلان کیا، سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ جہاں پنجاب پولیس کی طرف سے بہت تیزی سے کارروائی ہوئی جو تعریف کے مستحق ہیں مگر ساتھ ہی جو پچھلے سات واقعات تھے کیا اس کے بعد اتنی تیزی نہیں دکھائی گئی، کیونکہ معاملہ سوشل میڈیا پر اٹھ گیا، الیکٹرانک میڈیا پر اٹھ گیا، ساتھ ہی چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا، 72گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی جو آج ختم ہوگئی اس لئے بہت تیزی سے کام ہوا، پہلے اور دوسرے واقعات کے بعد ہی قصور میں کیمرے کیوں نہیں لگائے گئے، یہی ڈی این اے کی لیبار ٹر ی اس وقت کیوں نہیں کام آگئی، اس قاتل کو پکڑنے کے لئے اس وقت اتنی زیادہ کوشش کیوں نہیں کی گئی، زینب کا معاملہ ہائی لائٹ ہوا تو اس کے بعد کوشش زیادہ ہوئی، شہباز شریف نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کے بعد پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا اب ان کی کوشش ہوگی ملزم کو انجام تک پہنچایا جائے، اہم بات ہے کہ شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ درکار قانونی عمل کے ساتھ تمام لوازمات پورے کیے جائیں گے، ان کی اپنی ذاتی خواہش ضرور ہے کہ مجرم کو چوک پر لٹکایا جائے اور جذبات میں یہ بات اکثر لوگ کرتے ہیں مگر کیس میں درکار قانونی عمل پورا ہونا چاہئے اور ملزم پر جرم ثابت ہونا چاہئے اور اس کے خلاف ہی عدالتی کارروائی ہونی چاہئے اور الزام عدالتی پلیٹ فارم پر ثابت ہونی چاہئے۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ زینب کیس میں ہمارے لئے کئی سبق ہیں جن سے ہمیں سیکھنا ہوگا تاکہ آئندہ ایسے بھیانک جرم نہ ہوسکیں، پہلا سبق ٹیکنالوجی کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہے، زینب کیس میں بھی ٹیکنالوجی کی وجہ سے مجرم کو پکڑنا ممکن ہوا، ہمارا مزاج ہے کہ جب کوئی واقعہ ہوجاتا ہے تو ہم الزام تراشیاں شروع کردیتے ہیں، پرتشدد احتجاج ہوتا ہے اور لوگوں کو ہٹانے کے مطالبات کیے جاتے ہیں، زینب کے کیس نے ثابت کردیا کہ یہ مطالبات کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتے بلکہ ٹیکنالوجی مسئلہ کا حل ہے، زینب اور اس جیسے سات بچیوں کے ساتھ درندگی کرنے والے کا سراغ ڈی این اے سے ملا، قصور کی پولیس نے بچوں کے ڈی این اے جمع کیے، پھر آس پاس کے مشتبہ افراد کے ڈی این اے جمع کر کے پنجاب فارنزک لیبارٹری بھیجے جہاں سے ملزم کا سراغ مل گیا، ملزم عمران کا ڈی این اے گزشتہ تمام واقعات میں جمع کیے گئے ڈی این ایز سے سوفیصد میچ کرگیا اور یہ سب کچھ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہوا، ڈی این اے کے بعد ملزم کا پولی گرافک ٹیسٹ کیا گیا، یہ بھی ٹیکنالوجی ہے، اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے پتا چلتا ہے کہ مجرم سچ بول رہا ہے یا جھوٹ بول رہا ہے، اس کے علاوہ ملزم کی ابتدائی شناخت میں سی سی ٹی وی کیمروں نے بھی مدد کی، ان کیمروں کا معیار اچھا نہیں تھا لیکن بہرحال اس ٹیکنالوجی نے بھی ملزم تک پہنچنے میں مدد دی۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ریپ اور دوسرے کیسوں میں ڈی این اے کو شہادت قرار دینے کی مخالفت کی تھی، اگر ڈی این اے ٹیسٹ نہ لیا جاتا تو قصور واقعات کا اصل ملزم قانون کی گرفت سے شاید بچ جاتا، زیادہ دباؤ بڑھنے پر پولیس کس کو بھی پکڑ کر، تشدد کر کے جرم قبول کروالیتی لیکن ٹیکنالوجی نے اصل ملزم تک پہنچنے میں مدد دی اور ملزم کو اعتراف جرم کرنے پر مجبور کردیا، مردان کی عاصمہ سے زیادتی اور قتل کے ملزمان کو پکڑنے کے لئے پنجاب کی اسی فارنزک لیبارٹری سے مدد لی جارہی ہے، خیبرپختونخوا پولیس کی طرف سے پنجاب کی فارنزک لیبارٹری میں باقاعدہ طور پر سیمپلز بھیجے گئے ہیں، اگر یہ لیبارٹری قائم نہ ہوتی تو کیا ہوتا، دوسرے صوبوں کی بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ پنجاب کی طرز کی ایسی ہی لیبارٹری قائم کی جائے، ماضی میں ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے سیمپلز بیرون ملک بھجوائے جاتے تھے، اندازہ کریں اگر ماضی کی طرح یہ ڈی این اے سیمپلز بیرون ملک بھجوائے جاتے تو گیارہ سو ڈی این اے کی پروفائلنگ میں کتنا وقت لگتا،اس پورے واقعہ کا دوسرا سبق یہ بھی ہے کہ بچوں سے زیادتی میں اکثر قریبی افراد یا جاننے والے ہی ملوث ہوتے ہیں، صرف یہ واقعہ نہیں نوے فیصد واقعات میں قریبی جاننے والے بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث پائے گئے ہیں، پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ زینب کے قتل میں ملوث ملزم عمران علی زینب کے ہی محلے میں رہتا تھا، عمران علی کا زینب کے گھر آنا جانا تھا، وہ بچی کو اکثر گھر سے لے جایا کرتا تھا، پولیس نے چوبیس سالہ ملزم کو پہلے ہی دن حراست میں لیا مگر ملزم نے طبیعت خراب ہونے کا ڈرامہ کیا جس پر محلے والوں کے کہنے پر ملزم کو چھوڑ دیا مگر بعد میں ملزم غائب ہوگیا اور پاک پتن چلا گیا جہاں اس نے اپنا حلیہ بھی تبدیل کرلیا مگر پھر بھی پاک پتن کے قریب سے پکڑا گیا،جہاں حکومت کی ذمہ داری مجرموں کو پکڑنا ہے وہیں والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں پر نظر کریں، بچوں سے بات کریں اور ان کی آگاہی کریں تاکہ وہ اس قسم کے واقعات پر چپ رہنے کے بجائے والدین کو بتائیں، اس حوالے سے نہ صرف والدین اپنی ذمہ داری ادا کریں بلکہ اسکول میں بھی بچوں کو سکھایا جائے اورا س حوالے سے مواد نصاب میں شامل کیا جائے،والدین ہوشیار ہوجائیں اور کسی پر اعتماد نہ کریں، یہ تاثر غلط ہے کہ جنسی زیادتی کرنے والا ملزم ہمیشہ کوئی اجنبی ہوتا ہے، اگر وہ بہت زیادہ مذہبی ہے تو وہ یہ کام نہیں کرسکتا، پچھلے دنوں ایسے واقعات ہوئے جس میں مدرسہ کے معلم نے بچوں کے ساتھ زیادتی کی، مختلف سیلیبرٹیز نے اپنی زندگی کی کہانی شیئر کی جس میں وہ بتاتے کہیں کہ ڈرائیور، معلم یا کوئی امیر گھرانے کا شخص ان کے ساتھ زیادتی کرتا رہا، سماجی ادارے آہنگ کے مطابق جنسی زیادتی کرنے والوں میں 47فیصد لوگ رشتہ دار ہوتے ہیں، 43فیصد افراد وہ ہوتے ہیں جو آپ کو جانتے ہیں جبکہ صرف سات فیصد لوگ اجنبی ہوتے ہیں، ایک اور سماجی ادارے ساحل نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے، ساحل کے 2017ء کے ابتدائی چھ ماہ کی رپورٹ کے مطابق زیادتی کا نشانہ بنانے والے 45فیصد جاننے والے تھے، 17فیصد واقف کار تھے جبکہ صرف 15 فیصد اجنبی تھے، یہ بچے ایسی جگہ زیادتی کا نشانہ بنے جو ان کا اپنا گھر ہے، دونوں اداروں کی رپورٹ یہ بتارہی ہے کہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے زیادہ تر ان کے اپنے عزیز یا جاننے والے ہی ہوتے ہیں، یہ بات اگر بچے سمجھ لیں کہ انہیں کسی کی باتوں میں نہیں آنا، کوئی بھی ان کے ساتھ اگر کچھ الگ برتاؤ کرے تو والدین کو فوراً بتانا ہے، وہ کچھ بھی غلط محسوس کریں تو شور مچانا ہے، کون سی حرکت غیرمناسب ہے، کون سا رویہ خطرے کا اشارہ ہے یہ سب بچوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے، یہ بات بارہا کہی جاتی رہی ہے کہ زینب کے کیس کو مثال بنانا ہوگا تاکہ آئندہ کسی کو اس جرم کی ہمت نہ ہو، حکومت اقدامات اٹھائے، قانون سازی کرے ساتھ ہی آگاہی کیلئے بھی باقاعدہ اقدامات اٹھائے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہوسکے، زینب کے والد نے خود ہمارے پروگرام میں کہا کہ قوم کے والدین اپنے بچوں کو آگاہی دیں، زینب کے کیس سے ایک اور سبق بھی ملتا ہے کہ جب بھی زیادتی کے واقعات سامنے آتے ہیں اصل محرکات کے بجائے مغربی کلچر اور لبرل سوچ کونشانہ بنایا جاتا ہے، ٹی وی پر تنقید کی جاتی ہے، دیگر ٹیکنالوجیز کو برا بھلا کہا جاتا ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ ٹی وی پر ایسی چیزیں دکھائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں حالانکہ زینب سمیت دیگر آٹھ بچیوں سے درندگی کرنے والا شخص مذہبی پس منظر رکھتا ہے، بچوں سے زیادتی کا ملزم کوئی بھی ہوسکتا ہے، مذہبی بھی ہوسکتا ہے اور غیرمذہبی بھی ہوسکتا ہے، اس سوچ کا تعلق کسی نظریے، مذہب، غربت، پیسے یا رشتے سے نہیں ہوتا، کوئی بھی ہوسکتا ہے اس لئے اپنے بچے کو تعلیم دیجئے، اس حوالے سے ان سے جتنی جلدی ہو بات کیجئے۔شاہزیب خانز ادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ صرف پانچ دن کے اندر نقیب اللہ محسود قتل کیس میں اہم پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے، منگل کو نقیب اللہ محسود کیس کی ایف آئی آر سچل تھانے میں نقیب کے والد محمد خان کی مدعیت میں درج کی گئی جس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کے اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے، ایف آئی آر کے مطابق نقیب کے ساتھ علی اور محمد قاسم کو بھی اٹھایا گیا جنہیں چھ جنوری کو رات دس بجے سپرہائی وے پر لاکر چھوڑ دیا گیا، نقیب کے والد کے مطابق ان کے بیٹے کو راؤ انوار نے اپنی قید میں رکھا اور نقیب کا موبائل فون بند کردیا، عزیز و اقارب نے نقیب کو بہت تلاش کیا، سترہ جنوری کو ٹی وی اور اخبارات میں خبر نشر ہوئی تو پتا چلا کہ راؤ انوار اور اس کے اہلکاروں نے نقیب کو جعلی پولیس مقابلہ میں قتل کردیا،پولیس کی انکوائری کمیٹی نے اپنی فائنڈنگز میں راؤ انوار اور اس کے اہلکاروں کو جعلی مقابلہ میں ملوث پایا، مقدمہ اغوا، قتل، سازش اور انسداد دہشتگردی کے تحت درج کیا گیا، ایف آئی آر میں درج ہے کہ اس واقعہ سے لوگوں میں خوف و ہراس اور دہشت پھیلائی گئی، مقدمہ درج کر کے کارروائی کی جائے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ منگل کو تحقیقاتی ٹیم نے محسود قبیلے کے عمائدین سے بھی ملاقات کی جس میں تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ نقیب کو جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا ہے، چیف جسٹس آف پاکستا ن نے بھی نقیب محسود قتل کے حوالے سے اہم ریمارکس دیئے ہیں ۔سپریم کورٹ کے حکم کے بعد منگل کو وزارت داخلہ نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا ہے۔ راؤا نوار کی اسلام آباد سے دبئی فرار ہونے والی فوٹیج بھی سامنے آگئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ کاؤنٹر پر کھڑے ہیں، انہوں نے ایک ٹوپی بھی پہنی ہوئی ہے، راؤ انوار نے کیسے فرار ہونے کی کوشش کی یہ معاملہ بھی اہم ہے، ایف آئی اے حکام کے مطابق راؤ انوار گزشتہ رات ساڑھے بارہ بجے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے، انہوں نے رات ایک سے ڈیڑھ بجے کے درمیان نجی پرواز EK615 کے ذریعے دبئی جانے کی کوشش کی جس پر انہیں ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے روکا اور دستاویز دکھانے کی درخواست کی، اس پر راؤ انوار نے سندھ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک این او سی دکھایا، ایف آئی اے حکام کے مطابق دستاویزات مشکوک لگنے کے بعد انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، یعنی راؤ انوار کے پاس سندھ حکومت کا این او سی بھی موجود تھا، حکام کے مطابق گرفتاری کے احکامات نہ ہونے کی وجہ سے راؤ انوار کو ایئرپورٹ سے باہر نکال دیا گیا مگر گرفتار نہیں کیا گیا، اس واقعہ کے کچھ دیر بعد راؤ انوار کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ دبئی فرار ہونے کی خبریں غلط ہیں، مجھے مقدمہ کا انتظار ہے، پہلے ایف آئی آر دیکھوں گا کہ کیس کیا بنایا گیا ہے اس کے بعد آئندہ کی حکمت عملی طے کروں گا، جب دبئی جانا چاہوں گا چلا جاؤں گا مجھے کون روکے گا، دبئی میں میرے بچے رہتے ہیں، دبئی جانا میرا حق ہے، اس وقت میں نہ کراچی میں ہوں نہ اسلام آباد میں بلکہ کسی اور جگہ ہوں، وزیرداخلہ سہیل انور سیال نے راؤ انوار کو کوئی این او سی جاری نہ کرنے کی بات کی اور یہ بھی کہا کہ راؤ انوار اسلام آباد ایئرپورٹ سے جارہے تھے جو وفاق کے کنٹرول میں آتا ہے، اس کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا راؤ انوار کے پاس موجود این او سی جعلی تھا، کیا وہ جعلی این او سی بنا کر جارہے تھے اور یہ جعلی این او سی انہیں کس نے بنا کر دیا، سہیل انور سیال نے واضح کردیا کہ کسی کو بھی ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں لیکن ایک واقعہ لے کر پوری پولیس فورس کو نشانہ بنانا زیادتی ہے، تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ ثناء اللہ عباسی نے بھی کہا کہ پولیس میں گندے افراد ہیں لیکن کراچی آپریشن کو بدنام نہیں ہونے دیں گے،کسی کو ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں دیں گے۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ نقیب محسود قتل کیس کا اہم معاملہ راؤ انوار کا بدلتا ہوا موقف بھی ہے، چند دن پہلے وہ پراعتماد طریقے سے کہہ رہے تھے کہ نقیب کا کرمنل ریکارڈ موجود ہے، اس وقت بھی سوال پیدا ہورہے تھے جب نقیب کو چارج شیٹ کررہے تھے جو بقول راؤ انوار ایک مقابلہ میں مارا گیا تو یہ ساٹھ ستر لاکھ روپے یہ ساری باتیں کیسے پتا تھیں اور وہ پیسے کہاں گئے، لیکن دو دن کے اندر جب راؤ انوار کے گرد گھیرا تنگ ہوا تو ان کا موقف بھی بدلا اور بات کرنے کا انداز بھی بدل گیا، راؤ انوار کچھ دن پہلے نقیب اللہ محسود کو باقاعدہ چارج شیٹ کررہے تھے اب کہہ رہے ہیں غلطی ہوسکتی ہے لیکن مجھے ہی ڈھونڈنے دیا جاتا کہ کس نے یہ بددیانتی یا غلطی کی ہے، راؤ انوار کے پاس اگر اپنی معصومیت کے حوالے سے اتنی ہی دلیلیں موجود ہیں تو وہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش کیوں نہیں ہورہے اور ملک سے کیوں جارہے تھے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نقیب محسود کی جعلی پولیس مقابلہ میں موت کے بعد شہر میں ایسے کیس سامنے آرہے ہیں جہاں مبینہ پولیس مقابلوں میں کسی کو مار دیا گیا یا پھر مبینہ طورپر پولیس کی جانب سے کسی کو اٹھالیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: