چھپن چھپائی کیسی فلم ہے؟

فلم چھپن چھپائی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم کو دیکھنے کی وجہ اس کو بنانے والے لوگ تھے جو کہ زیادہ ترنئے ہیں یا زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ ہدایتکار محسن علی کی بطور ہدایتکار یہ پہلی فلم ہے جو اس سے پہلے ایک فلم کی کہانی لکھ چکے ہیں۔ فلم چھپن چھپائی کے مصنف بھی وہ خود ہیں۔ کہانی نئی تو نہیں کہہ سکتے، ایک تامل فلم بھی بلکل اسی کہانی کے ساتھ بن چکی ہے اور یہ فلم بقول محسن علی کے بھی نوجوان نسل کے لیے بنائی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک مزاحیہ انداز کی فلم ہے جس کی کہانی پانچ کرداروں کے گرد گھومتی ہے جس میں بیروزگاری جیسے موضوع کو ہلکے پھلکے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے سو فلم کی کہانی کو اچھا کہا جا سکتا ہے۔

فلم کی ہدایتکاری جیسا کہ بیان کیا کہ محسن علی کی پہلی فلم ہے مگر اس بات کو زیر بحث نہیں لایا جا سکتا کہ چلو پہلی فلم ہے خیر ہے۔۔ایسا نہیں ہے جو فلم دیھکنے آتا ہے وہ یہ مارجن دینے کو تیار نہیں ہوتا ،یہ ہدایتکار ہو سکتا ہے آگے چل کر اچھی فلمیں بنائے گا بلکہ ہمارے ہاں تو فلم بین فلم ہدایتکار کی اہمیت اور کردار کو سمجھتا ہو یا نہ یہ ضرور توقع رکھتا ہے کہ فلم اچھی ہونی چاہیئے۔ اس فلم کو کہانی کے لحاظ سے ٹریٹ نہیں کیا گیا ۔ کہیں کہیں لگا جیسے بہت جلدی میں بنائی گئی ہے مزاحیہ فلم میں بھی ڈائیلاگ بولنے کی ٹائمنگ اتنی ہی اہم ہے یا زیادہ اہم ہے جتنی کسی سنجیدہ فلم میں لیکن کئی مکالمے اتنی تیزی سے ادا کئے گئے کہ سننے والے کو بڑی غور و فکر کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہاں ہنسنا تھا۔ مثال کے طور پر ہاتھ آگے باندھنے تھے یا پیچھے والے مکالمے اور احسن خان جس کو کہتا ہے کہ معاف کرو کھلے پیسے نہیں ہیں اور وہی کردار جب ہوٹل میں احسن خان کو دوبارہ دیکھتا ہے وہاں صورتحال مزاحیہ دکھا نے کی کوشش کی گئی مگر ہدایتکار کے ساتھ ساتھ اداکار بھی نئے تھے سو وہ منجھے ہوئے اداکاروں کی طرح ٹائمنگ کا خیال نہیں رکھ پائے۔

اسی طرح فلم میں ان پانچ کرداروں کے علاوہ باقی کرداروں کا آنا پولیس والا چوہدری کا کردار گو کہ اسکی اسکرین پر موجودگی اگر تو فلم کے موڈ کے حساب سے دیکھا جائے اسکو مزاح میں اضافہ کرنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور اگر اس کردار کو فلم میں سنجیدگی کے لیے رکھا تھا تو بھی اس کردار نے بوریت میں اضافہ کیا ۔ کیونکہ خود تو وہ سنجیدہ تھا مگر جن کرداروں سے وہ ڈیل کر رہا تھا وہ مزاحیہ تھے تو عجیب کھچڑی سی بن گئی تھی۔ اسی طرح نیلم منیر کے کردار کو ایسا دکھایا گیا کہ وہ پری ہوتی ہے اور صرف ہیرو کونظر آتی ہے ہیرو کے ساتھ بیٹھے باقی کرداروں کو دکھائی نہیں دیتی ۔مگر پہلے گانے میں سمندر پر اسی پری کے ہاتھ سے ہیرو نہیں بلکہ کسی دوسرے کردار کو کچھ کھاتے بھی دکھایا گیا تو ایک دم ایک نظر نہ آنے والا کردار نظر کیسے آنا شروع ہوگیا۔ اور آخری سین میں جب نیلم دوبارہ زندہ ہو کر آجاتی ہے تب بھی اسکو سارے کردار دیکھتے ہیں اگر وہ صورتحال مزاحیہ تھی تو پہلے وہ کردار سب کو کھائی کیوں نہیں دیتا۔

فلم میں احسن خان اور نیلم منیر نے اچھی اداکاری کی۔ نیلم کی بڑی اسکرین پر پہلی پرفارمنس تھی ۔ایک دو جگہ زبردستی کی اداکاری لگی البتہ علی رضوی خواجہ عدنان اور باقی دونوں نئے کرداروں نے اچھاکام کیا۔ پانچ کرداروں کی آپس کی کیمسڑی بھی اچھی نظر آئی ۔ طلعت حسین، سکینہ سموں اور جاوید شیخ نے مختصر کردار اچھے نبھائے۔ فلم کا میوزک اچھا ہے اور چار گانوں میں سے کوئی بھی بھرتی کا گانا نہیں ،صدقے والے گانے کی لوکیشن اور کیمرہ ورک قابل تعریف ہے۔

اس فلم کو مزید اچھا کیا جا سکتا تھا ۔ فلم بنانے والوں سے گذارش ہے کہ اب لوگ اگر پاکستانی فلمیں دیکھنے آرہے ہیں تو انھیں معیاری فلمیں ہی دکھائی جائیں کیونکہ اگر فلم بین آنا چھوڑ دیں تو جتنا مرضی زور لگا لیں وہ واپس نہیں آتے۔ زیادہ توجہ کے ساتھ فلم بنائی جائے تو لوگ خوش بھی ہوں گے اور فلم کامیاب بھی ہو گی۔اس فلم کو دس  میں سے پانچ نمبرز یا پانچ سٹارز میں سے ڈھائی سٹارز دیے جاسکتے ہیں ۔

مزید پڑھیے:

امتیا زگل سے صد معذرت کے ساتھ

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: