شریف برادران کا دورہ سعودیہ ،سفارتی کشیدگی کم کرنے کیلئے

شریف برادران کا حالیہ دورہ سعودی عرب ٹرمپ کی قومی سلامتی کی پالیسی کے پیش نظر پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحد پر کشیدگی کو کم کرنے کے لئے قابل عمل حل کی تلاش کے لئے ہے۔ یہ بات دی نیوز کو معلوم ہوئی ہے۔ ہمہ وقت تبدیل ہوتا جیو اسٹریٹیجک منظرنامہ فوری طور پر سیاسی مائیکرو مینجمنٹ کا متقاضی ہےاور اس نے اعلی سطح کے فیصلہ سازوں کو جنوبی ایشیا میں منڈلاتی تباہی کو روکنے کے لئے سفارتی کوششوں کو بڑھانے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ امریکا کی جانب سے افغانستان کے ذریعے پاکستان کو نوٹس پر رکھنے اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندر سرجیکل اسٹرائیک قسم کی دھمکیوں کی وجہ سے ملک میں طاقت کی راہداریاں جارحیت میں معمولی اضافے کا بھی انتظار نہیں کر سکتیں کیونکہ اس کے نتیجے میں اطراف میں دو بڑے ممالک کے مقابلے میں بڑے روایتی جنگی عدم توازن کی وجہ سے ایٹمی ہتھیاروں کو تیار کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔فوج کی اعلی قیادت پہلے ہی تمام اطراف میں بات چیت میں مصروف ہے اور یہ معلوم ہوا ہے کہ درجہ حرارت کو کم کرنے کے لئے سفارتی اقدام بہت ضروری تھا۔ چونکہ ایک ایسے وقت میں جب امریکا ولادیمر پوٹن کے ہاتھوں تیزی سے مشرق وسطی کو کھوتا جارہا ہے،ٹرمپ کے بعد سعودی عرب نے بے پناہ سیاسی و جغرافیائی اہمیت حاصل کر لی ہے، اسلام آباد کو ریاض کے سامنے اپنا کیس پیش کرنے کی شدت سے ضرورت ہے۔ پاکستان، افغانستان میں اپنے اسٹریٹیجک مفادات کی بابت مشکل صورتحال کا شکار ہے، جہاں اگر وہ سستی دکھائے تو سب کچھ بھارت لے جائے گا اور اگر اپنے موقف پر قائم رہے تو اسے اپنے وجود کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔اس وقت جاری زبانی جنگ سے صورتحال کہیں زیادہ ناقابل پیش گوئی ہوگئی ہے اور مدہم سفارتی زبان غائب ہوتی جارہی تھی، اس لئے فیصلہ سازوں نے درست طور پر کسی قدر مشکل لمبا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ معلوم ہوا ہے کہ اس طرح کی مشکل صورت حال میں فوج کی اعلی قیادت نے کامیابی کا امکان بہت کم ہونے کے باوجود جاتی امرا کی جانب دیکھا۔ سویلین حکومتوں میں شریف خاندان کی سعودی عرب کے شاہی خاندان کے اندر تعلقات کی تاریخ ہے اور وہ پاکستان کے موجودہ بحران میں شاہی خاندان سے جو وہ دے سکتے ہیں، حاصل کر سکتے ہیں۔ شہباز شریف پہلے ہی اس معاملے میں مصروف ہیں، نواز شریف کو قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ کی ملاقات کے بعد بطور کمک بھیجا گیا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس پر ٹرمپ کے موقف نے سعودی شاہی خاندان کو پریشانی میں ڈال دیا کیونکہ وہ ایران سے دشمنی کی قیمت پر مسلم امہ کی قیادت سے دستبردار نہیں ہو سکتا اور یہ بھی نہیں ہونے دیا جاسکتا کہ ترکی اس کی جگہ لے۔ اسی وجہ سے اسلام آباد نے سعودی عرب سے مدد مانگی ہے، غالبا یہ جانتے ہوئے کہ سعودی عرب اپنی علاقائی ترجیحات کو الگ رکھتے ہوئے اور امت کا لیڈر ہونے کی حیثیت سے اس بحران میں پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ شریف برادران کو سعودی عرب اور ایران کے مابین ثالثی کے لئے پاکستان کے کردار کا ایجنڈا بھی دیا گیا ہے۔ پارٹی کے سینئر ذرائع نے کہا ہے کہ ’’اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی پیچیدہ صورت حال پر نہ صرف شریف خاندان سے تبادلہ خیال کر کے بے پناہ اعتماد کا اظہار کیا ہے ، شاہی خاندان کو بھی بتایا ہے کہ پاکستان خطے میں استحکام پیدا کرنے والی قوت کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گا۔ اب دیکھتے ہیں کہ شریف خاندان شاہی خاندان سے اپنی قربت کے ذریعے وہ کس قدر کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔‘‘پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید کا بیان بھی کم و بیش اس کی تصدیق کرتا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ دو اسلامی ممالک کے مابین باہمی تعلقات کی نوعیت کے حوالے سے جو سادہ لوح لوگ ہیں اور بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات سے ناواقف ہیں وہی ن لیگ کے صدر کے دورہ سعودی عرب کو ذاتی اور پارٹی ایجنڈے کے لئے قرار دے سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: