پریس کلب الیکشنز

دس سال ہوگئے لیکن لگتا ایسا ہے کہ کل کی بات ہے۔ پانچ سال سے ممبرشپ پر لگی پابندی ختم کرکے پروگریسو گروپ نے نئی ممبرشپ کی تو میں بھی لاہور پریس کلب کا رکن بن گیا۔
نئے ممبرز اتنے تواتر سے سنا کہ پریس کلب میں آج بھی خود کو نیا ہی سمجھتے ہیں۔
پرانے ارکان ہمیں گھورتے اور ایک دوسرے سے باتوں میں ہمارا مذاق اڑایا جاتا لیکن سینئرز کا ادب تھا کہ آنکھ اٹھا کر بات نہیں کی۔
پہلی دفعہ ووٹ ڈالنے گیا تو ارشد انصاری صاحب بڑھ کر آگے آئے نئی رکنیت کا سنا تو ان سے ہمت نہیں ہوئی کہ ووٹ مانگ سکیں یا شاید چہرے پر تاثرات کچھ ایسے ہوں۔
ایف بلاک کا وعدہ ہوا، پارک کی زمین اور درد صاحب کی درخواست آگئی، کرتے کراتے پروگریسو کے چار سال گزر گئے لیکن ہمیں کچھ نہ ملا۔
نیوز روم میں سلہری صاحب کی انٹری ہوئی اور انہوں نے جرنلسٹ پینل کی طرف مائل کیا، کہا کہ پروگرویسو کچھ نہیں کرے گا۔
جواب میں کہا کہ بھائی جو گروپ ہمیں آس دیتا ہے اس کے ساتھ رہنے دیں، انصاری صاحب سے بات کرائی گئی تو انہوں نے کہا کہ ایف بلاک سراب ہے۔
انصاری صاحب سے کہا کہ ایف بلاک کا وعدہ کریں تاکہ آئندہ الیکیشن میں آپ سے جواب طلب کرسکوں۔
وعدہ لے کر انصاری کی حمایت کا اعلان کیا اور پہلی مرتبہ جرنلسٹ کے صدر کو ووٹ ڈالا۔
الیکشنز کے بعد ایک صاحب نے کہا کہ ووٹر ٹشو پیپر ہوتا ہے جس کو استعمال کریں اور پھینک دیں اس پر جرنلسٹ کا بائیکاٹ کیا اور آج تک اس امیدوار کی مخالفً کی۔
جرنلسٹ پینل نے ایف بلاک کیلئے زمین لے دی لیکن پھر شاید قبضہ کرانے کیلئے رکھ چھوڑی۔
انصاری صاحب کا تنازعہ اور جرنلسٹ میں توڑ پھوڑ کا سب کو پتہ ہے۔
اس دوران موسمی تنظیمیں ابھرنے لگیں اور ہر بندہ صدر سیکرٹری اور عہدیدار بنتا گیا۔
ان کو پریس کلب میں بھی شیئر دیا جانے لگا، پروگریسو جو روایتی سیاست کا باغی گروپ تھا وہ بھی ڈرٹی پالیٹکس میں ڈوبتا گیا۔
ہر الیکشن پر دوستوں سے گلے ملتے اور ساتھ کھڑے ہو کر اپنے اپنے گروپ اور امیدوار کیلئے ووٹ مانگتے۔
یہاں عادل صاحب اور عزیز صاحب کا ذکر کرنا لازم سمجھتا ہوں جنہیں ہم ووٹ مانگنے نہیں دیتے اور وہ ہم پر کچھ برہم بھی ہوتے لیکن بچوں کی طرح ہم پر مسکراتے رہتے۔
آج میرے اس کمیونٹی کلب میں لوگ گلے ملنے کے بجائے گلے دبانے اور گلے کاٹنے میں لگے ہوئے۔
یہ گلے شکوے تو چلتے رہیں گے لیکن دوستیاں اور پیار ختم نہ کریں۔
لاہور پریس کلب کو لاہور پراپرٹی کلب نہ بنائیں۔
ایشوز اور منشور پر سیاست کریں رکنیت سازی پر نہیں۔
پروگریسو بتائے کہ نئی رکنیت سازی جون تک کی جانا تھی یہ دسمبر میں کیوں ہوئی؟
بی بلاک کے قبضوں، نئی کالونی کا کیا ہوا؟
ایف بلاک میں ترقیاتی کام فروری میں شروع ہونا تھا اب تک کیوں نہ ہو سکا؟

اور جرنلسٹ اپنا منشور دے کہ جہاں جہاں پروگریسو ناکام رہا وہاں وہ کیا کرسکتا ہے؟۔

نئے ارکان کو عزت سے خوش آمدید کہیں، اگر کوئی غلطی ہے تو درست کریں۔ ووٹنگ رائٹ کا معاملہ اتنا بڑا ایشو نہ بنایا جائے اور گالم گلوچ ختم کی جائے۔

اگر کسی کو بھی گروپ یا امیدوار سے گلہ وہ ووٹ کے ذریعے احتساب کرے

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: