عمران خان اہل ہیں یا نااہل، فیصلہ ملکی سیاست میں ہلچل مچادے گا

جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اہل ہیں یا نا اہل ،فیصلہ ملکی سیاست میں ہلچل مچادے گا،ایاز صادق کے بیان پر ن لیگ میں واضح تقسیم نظر آتی ہے،سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشیدنے کہا کہ ملک کا وزیراعظم مہینے میں تین دفعہ لندن جائے گاتو ملک کیا چلے گا۔پروگرام میں سینئر تجزیہ کار طلعت حسین نے بھی اظہار خیال کیا۔شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد اٹھنے والا سیاسی طوفان اب تک تھما نہیں ہے، چند گھنٹوں بعد ایک اور ایسا فیصلہ آنے والا ہے جو پاکستانی سیاست کا رخ بدل سکتا ہے، پاکستانی سیاست کا ایک اہم اور ہائی پروفائل کیس جس کی چھ ماہ تک سماعت ہوتی رہی ، جس کا فیصلہ چودہ نومبر کو محفوظ کیا گیا اب ایک ماہ بعد کل سپریم کورٹ فیصلہ سنائے گی کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اہل ہیں یا نااہل۔ جہانگیر ترین کی پارلیمانی سیاست جاری رہے گی یا پھر وہ نااہل ہوجائیں گے، ن لیگ کے بعد اب پاکستان کی ایک اور مقبول جماعت تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کا مستقبل عدالت طے کرے گی، فیصلہ جو بھی آئے ملکی سیاست میں ہلچل مچادے گا، عمران خان نااہل ہوئے تو تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بہت بڑا دھچکا لگے گا، اگر عمران خان اہل رہے تو ن لیگ کہے گی کہ یکطرفہ فیصلے ہورہے ہیں اور صرف ن لیگ کو نشانہ بنایا جارہا ہے، نواز شریف پہلے ہی کہہ چکے کہ جس قسم کے فیصلے ہورہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے کیس میں بھی مجھے ہی ڈس کوالیفائی کردیا جائے گا، ن لیگ سمجھتی ہے کہ عمران خان نااہل ہو ں یا اہل رہیں ان کا فائدہ ہی ہوگا، یعنی ن لیگ کی سیاست میں ایک نیا بیانیہ آنے والا ہے، تحریک انصاف کا اس معاملہ پر ردعمل دلچسپ ہوگا، نواز شریف کی نااہلی پر خوشیاں منانے والی تحریک انصاف کیا عمران خان کی نااہلی پر عدالتی فیصلہ قبول کرے گی، عمران خان دعویٰ یہی کرتے رہے ہیں کہ میں نہیں کہوں گا کہ مجھے کیوں نکالا، اگر عمران خان بچ جاتے ہیں اور جہانگیر ترین نااہل ہوجاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ اس کیس میں معاملہ دیانتداری کا ہے اس لئے فیصلہ سوچ کر اور احتیاط سے دیں گے، تین رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ ہم سچ کو تلاش کررہے ہیں، نہ سمجھیں کہ فیصلہ کل آجائے گا ، اب پورے ایک مہینے بعد عدالت عظمیٰ اس کیس کا فیصلہ سنانے جارہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہناتھا کہ تحریک انصاف سماعت کے دوران اس کیس کو جتنا آسان سمجھتی رہی یہ اتنا آسان نہیں رہا، عمران خان کواس کیس میں اثاثے چھپانے کے الزامات کا سامنا رہا، ان الزامات میں کتنی سچائی ہے وہ عدالتی فیصلے کے بعد ہی پتا چلے گا، اس کیس کی سماعت چھ ماہ تک جاری رہی جس دوران عدالت نے بھرپور سوالات اٹھائے، عمران خان نے اس کے بھرپور جوابات دیئے مگر جو جواب دیئے وہ اکثر پہلے جواب سے متضاد نکلے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے کبھی کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھا لیکن جو اسٹینڈرڈز پاناما میں متعین کیے گئے اس کے بعد سوال اٹھ رہا تھا کہ اگر عمران خان کے کیس بھی وہی اسٹینڈرڈز فالو کیے گئے تو کہیں عمران خان مشکل میں نہ پھنس جائیں، عمران خان کا اس کیس میں سب سے دلچسپ موقف اپنی آف شور کمپنی نیازی سروسز کے حوالے سے رہا، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی آف شور کمپنی ریٹرنز اور الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کی اس لئے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ انہیں بھی اثاثے چھپانے پر نااہل قرار دیا جائے، مگر اس حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس جوں جوں آگے بڑھتا رہا عمران خان کا موقف بدلتا رہا، نئی نئی دستاویز ات آتی رہیں اور بار بار منی ٹریل مکمل ہونے کے دعوے کیے گئے مگر گزشتہ ماہ سپریم کورٹ میں عمران خان نے سماعت مکمل ہونے کے بعد بھی نئی دستاویزات جمع کرائیں جس پر ن لیگ اعتراض کرتی رہی کہ یہ عجب کیس ہے کہ فیصلہ محفوظ ہوگیا اس کے باوجود دستاویزات جمع کرانے کا موقع دیا جارہا ہے مگر پھر بھی عدالت مطمئن دکھائی نہیں دی، پاناما کا معاملہ سامنے آیا تو عمران خان آف شور کمپنی پر تنقید کرتے رہے مگر پھر ان کی اپنی آف شور کمپنی سامنے آئی تو انہوں نے اس کی وجہ لندن میں ٹیکس سے بچنا بتائی، تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ آف شور کمپنی عمران خان نے بنائی اور اپنے نام سے بنائی، یہ اس لئے اہم ہے کہ بعد میں عدالت میں جو موقف تھا اس میں فرق رہا اور وہ بدلتا رہا، سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری موقف میں عمران خان اس آف شور کمپنی سے دوری اختیار کرتے دکھائی دیئے، عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ وہ نیازی سروسز کے بینیفیشل اونر ہیں لیکن کبھی اس کے ڈائریکٹر اور شیئرہولڈر نہیں رہے اسی طرح سولہ اکتوبر 2017ء کو اپنے ایک اور تحریری جواب میں عمران خان نے یہ تک لکھا کہ ان کے علم میں لائے بغیر ہی نیازی سروسز اور کرائے دار کے درمیان کرائے کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کے لئے قانونی معاملہ چلتا رہا، عمران خان نے لکھا کہ 2012ء میں نیازی سروسز کے ڈائریکٹرز اور شیئر ہولڈرز کی طرف سے ان سے مزید پیسے مانگے گئے جو انہوں نے مسترد کردیئے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کا ڈائریکٹر اور شیئرہولڈر کون ہے، کمپنی عمران خان نے بنائی تو ڈائریکٹر کون تھا جو انہیں بتائے بغیر معاملات چلاتا رہا اور پیسے طلب کرتا رہا، عمران خان نے سولہ اکتوبر کو سپریم کورٹ میں نئے تحریری بیان میں لکھا کہ ان کی معلومات کے مطابق نیازی سروسز لمیٹڈ کو 2012ء میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے کی وجہ سے ڈی نوٹیفائی کردیا گیا، یعنی عمران خان کے حالیہ موقف کے مطابق نیازی سروسز 2012ء میں ختم ہوگئی مگر عمران خان کا عدالت میں اختیار کیا گیا موقف بھی درست نہیں تھا، ہمارے پاس موجود برطانیہ کے ادارے جرسی فائنانشل کی کمپنیز رجسٹری کی تصدیق شدہ دستاویزات کے مطابق عمران خان کی نیازی سروسز لمیٹڈ جس کی رجسٹریشن نمبر RC26211 ہے وہ 2012ء میں نہیں بلکہ 2015ء میں ختم کی گئی جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن یکم اکتوبر 2015ء کو جاری کیا گیا، ان دستاویزات کے مطابق عمران خان کا موقف درست نہیں، اس حوالے سے دی نیوز کے صحافی احمد نورانی نے مئی 2016ء میں اپنی خبر میں یہ سب بتادیا تھا، خبر کے مطابق عمران خان کی آف شور کمپنی نیازی سروسز اکتوبر 2015ء تک فعال رہی اور عمران خان کی ٹیم فروری 2014ء تک کمپنی کے ریٹرنز فائل کرتی رہی، حتیٰ کہ عمران خان نے مارچ 2013ء میں الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور اس سے ایک ماہ پہلے بھی ان کی ٹیم نے فروری 2013ء میں کمپنی کے ریٹرن فائل کیے مگر 2013ء کے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیے، اب یا تو جرسی فائنانشل کی دستاویزات غلط ہیں یا عمران خان کا بیان غلط ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ عمران خان نے مئی 2017ء کو اپنے جواب میں لکھا کہ وہ حلفیہ کہتے ہیں کہ لندن کے فلیٹس کے علاوہ نیازی سروسز کا کوئی اور اثاثہ نہیں ہے لیکن عمران خان کی سپریم کورٹ میں اپنی ہی جمع کردہ دستاویزات اس بات کی بھی نفی کررہی ہیں، عمران خان نے اپنی منی ٹریل کی وضاحت کیلئے جولائی میں جو دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروائیں وہ ان کے اس دعوے کی نفی کرتی ہیں کہ نیازی سروسز کے پاس اس فلیٹ کے علاوہ کوئی اور اثاثہ نہیں تھا، عمران خان کی دستاویزات میں نیازی سروسز کو ادائیگی کے چیکس موجود ہیں، عمران خان کو کرکٹ اور ایڈورٹائزمنٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا کچھ حصہ نیازی سروسز کے اکاؤنٹ میں آتا رہا، یعنی اس آف شور کمپنی کا فلیٹ کے علاوہ بھی اثاثہ رہا ہے، اس سے پہلے عمران خان نے موقف اختیار کیا تھا کہ نیازی سروسز 2003ء میں فلیٹ کی فروخت کے بعد ایک شیل کمپنی تھی اس کا کوئی اثاثہ نہیں تھا مگر یہ دعویٰ بھی درست دکھائی نہیں دیتا، کمپنی فعال رہی اور کمپنی کا بینک اکاؤنٹ بھی تھا جس سے ادائیگی بھی ہوئی اور کمپنی کے اکاؤنٹ میں پیسے بھی آتے رہے، 29اکتوبر کو سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ فلیٹ کے علاوہ بھی نیازی سروسز کے اکاؤنٹ میں پیسے آئے، چیف جسٹس نے سماعت کے دوران عمران خان کی کتاب کی رائلٹی کا معاملہ بھی اٹھایا، انہوں نے عمران خان کے وکیل نعیم بخاری سے سوال کیا کہ عمران خان کی کتاب کی رائلٹی نیازی سروسز کے اکاؤنٹ میں کیوں آتی رہی؟ جبکہ آپ کا موقف ہے کہ یہ شیل کمپنی تھی جو صرف فلیٹ کی خریداری کیلئے بنائی گئی تھی، اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کی کمپنی کے اکاؤنٹ میں آنے والے 75ہزار پاؤنڈز پر بھی سوالات کیے، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ 75ہزار پاؤنڈز عمران خان کی کمپنی کے اکاؤنٹ میں کیمن آئی لینڈ سے آئے لیکن معلوم نہیں کہ رقم کو بھیجنے کے ذرائع کیا ہیں، کتاب کی رائلٹی بھی آتی رہی اور کیمن آئی لینڈ سے بھی رقم آتی رہی، کمپنی شیل تھی تو اکاؤنٹ سے ٹرانزکشن کیسے ہوتی رہیں، عمران خان کا پہلا بیان درست ہے یا بعد میں عدالت میں سامنے آنے والا موقف درست ہے یہ عدالت کے فیصلے سے پتا چلے گا کہ عدالت نے کون سا موقف مانا۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے مئی 2017ء میں اپنے تحریری بیان میں لکھا کہ فلیٹ کی فروخت کے بعد ایک لاکھ برطانوی پاؤنڈ ان کے اکاؤنٹ میں رہ گئے جو ان کے ذاتی نہیں بلکہ کمپنی کے تھے تاکہ برطانیہ میں قانونی اخراجات ادا کیے جاسکیں، جب عدالت نے اس ایک لاکھ پاؤنڈ کے حوالے سے سوال پوچھا تو عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ 99ہزار پاؤنڈ نیازی سروسز کا اثاثہ تھا، قانونی چارہ جوئی عمران خان کے نام پر نہیں نیازی سروسز کے نام پر تھی، اکاؤنٹ میں موجود رقم عمران خان کی نہیں تھی، نعیم بخاری کے دلائل پر چیف جسٹس نے رقم کی قانونی چارہ جوئی کیلئے استعمال ہونے کا ثبوت مانگ لیا، تین اکتوبر کی سماعت میں عدالت نے صاف الفاظ میں اس ٹرانزیکشن پر سوال اٹھایا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان نے تین ٹرانزیکشنز ثابت کردی ہیں، صرف مئی میں آنے والی رقم ثابت نہیں ہوسکی، اس رقم کے حوالے سے کئی سماعتوں تک تحریک انصاف کے وکیل عدالت کو مطمئن نہ کرسکے، سولہ اکتوبر کو عمران خان نے اپنے نئے تحریری جواب میں حیران کن موقف اختیار کیا، عمران خان کی جانب سے دیئے گئے جواب میں اپنے گزشتہ جواب کو غلط قرار دیا گیا،نئے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کے ڈائریکٹرز اور شیئر ہولڈرز نے پہلے بتایا تھا کہ اکاؤنٹ میں موجود تقریباً ایک لاکھ پاؤنڈ قانونی چارہ جوئی میں خرچ ہوگئے تاہم بعد میں اپلیٹ کورٹ کا فیصلہ ان کے حق میں آگیا جس کے بعد نیازی سروسز لمیٹڈ نے چالیس ہزار پاؤنڈز مئی 2004ء میں ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرادیئے، اس رقم کے بارے میں عمران خان اور ان کے ٹیکس کنسلٹنٹ کو یاد نہیں رہا تھا اس لئے سپریم کورٹ کوا ٓگاہ نہیں کیا گیا تھا، عمران خان کی درخواست میں کہا گیا کہ پہلے جواب غلط مشورے، ریکارڈ کی عدم دستیابی اور عمران خان کی یادداشت کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ یہ وہ تضادات اور موقف کی تبدیلی ہے جو عمران خان کے کیس میں بار بار سامنے آتی رہی، عدالت کی طرف سے سوالات اٹھائے جاتے رہے اور تحریک انصاف کی طرف سے بار بار کہا گیا کہ سب کچھ عدالت کے سامنے پیش کردیا ہے، پورا منی ٹریل عدالت میں جمع کرادیا گیا ہے پھر عدالت کی طرف سے سوال اٹھتا اور پھر عمران خان کی طرف سے کوئی نئی دستاویز سامنے آجاتی،اپنے گزشتہ جواب کو غلط قرار دے کر ایک نیا جواب سامنے آجاتا اور پھر سے دعویٰ کیا جاتا کہ سب کچھ عدالت میں جمع کرادیا گیا، ان سب دعوؤں کے باوجود نئی نئی دستاویزات جمع کرائی گئیں، بار بار مکمل ریکارڈ فراہم کرنے کے دعوے کیے گئے، عمران خان نے سولہ اکتوبر کو جواب جمع کرانے کے بعد ٹوئٹ میں لکھا کہ خدا کا شکر ہے جمائما نے ریکارڈ سنبھال کر رکھا، 6 لاکھ 72ہزار پاؤنڈ کا میرا ریکارڈ اب سپریم کورٹ کے پاس ہے جبکہ نواز شریف جعلی قطری خط کے سوا اپنی 300ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی کوئی دستاویزات نہیں کرواسکے، اسی طرح 23جولائی کی ٹوئٹ میں عمران خان نے لکھا کہ جمائما نے بھی برسوں پرانا بینکنگ ریکارڈ دیدیا ہے جو عدالت میں پیش کردیا گیا ہے، یکم جون کو جمائما نے ٹوئٹ کیا کہ آخرکار پندرہ سال پرانا بینکنگ ریکارڈ تلاش کرلیا جس سے عمران خان کا منی ٹریل عدالت میں درست ثابت ہوگا، عمران خان نے اس ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اللہ الحق۔ اگلے دن چوبیس جولائی کو عمران خان نے ٹوئٹ کیا کہ کوئی قانون توڑے بغیر اور عوامی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود وہ اپنی چالیس سال پرانی منی ٹریل جمع کروارہے ہیں، نہ صرف عمران خان بلکہ ان کی سابق اہلیہ جمائما بھی منی ٹریل کی تلاش میں سرگرم نظر آئیں، انہوں نے پانچ اکتوبر کو ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ خوش قسمتی سے 2003ء کے اسٹیٹمنٹ مل گئے ہیں، اس سے پہلے انہوں نے یکم جون کو اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ پندرہ سال پرانی بینک اسٹیٹمنٹ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں جس سے عدالت میں عمران خان کی منی ٹریل اور بے گناہی ثابت ہوجائے گی۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ عمران خان اپنی مکمل منی ٹریل موجود ہونے کا دعویٰ کرتے رہے لیکن عدالت میں تصدیق شدہ بینکنگ ٹرانزیکشن کے بجائے مختلف دستاویزات اور ای میلز کا سہارا لیا جاتا رہا جبکہ عمران خان کے وکیل بھی کئی بار یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ کئی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ موجود نہیں ہے، اب تمام تر دعوؤں کے باوجود عدالت عمران خان کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات سے مطمئن دکھائی نہیں دی، عمران خان کا سیاسی مستقبل اس کیس سے جڑا ہے، ظاہر ہے عمران خان پر ذمہ داری بھی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ law of limitation کو رکھا گیا ہے کہ پانچ سات سال گزرجانے کے بعد یہ سوال نہ کیا جائے، عمران خان قانونی طور پر پابند نہیں تھے کہ اپنا چالیس سال پرانا ریکارڈ جمع کراتے، لیکن جو پاناما میں روایت طے ہوئی اس کی وجہ سے عمران خان کو بھی یہ دستاویزات جمع کرانی پڑیں، اس بڑے کیس کا انجام کیا ہوگا یہ عدالتی فیصلہ بتائے گا۔شاہزیب خانزاد نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی اہلیت کا بھی آج فیصلہ سنائے گی، جہانگیر ترین کے حوالے سے بھی سماعت کے دوران انسائیڈر ٹریڈنگ کا معاملہ سامنے آیا، ان کی آف شور کمپنی کی ملکیت پر سوال اٹھے اس پر ان کی طرف سے موقف بدلا گیا، ان کی زرعی زمینوں پر ٹیکس پر بحث ہوئی، انسائیڈر ٹریڈنگ پر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ان کے خلاف جرمانہ عائد کرچکی ہے مگر انہوں نے عدالت میں ایس ای سی پی کے قوانین پر اعتراضات اٹھائے، اس کے علاوہ آف شور کمپنی کی ملکیت کے حوالے سے بھی دوران سماعت جہانگیر ترین نے اپنا موقف بدلا اور زرعی زمینوں پر ٹیکس کے حوالے سے بھی انہیں عدالت کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، عدالت کی طرف سے آخر تک سرکاری ریکارڈ طلب کیا جاتا رہا، اب آج یہ فیصلہ آئے گا جس سے پتا چلے گا کہ معاملہ کس سمت میں جارہا ہے، اس فیصلے سے اپوزیشن کی سیاست پر کتنا فرق پڑے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: