پاکستان ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کے اعتبار سے ایشیا میں سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے۔ ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایڈز کے عالمی دن کے موقع پر پاکستانی میڈیا میں اس موضوع پر متعدد رپورٹیں شائع اور نشر کی گئی جن میں اس بیماری سے تحفظ کے لیے عوام میں شعور و آگہی اجاگر کرنے پر زور دیا گیا۔
پاکستان میں اس متعدی بیماری سے متاثرہ مریضوں میں سے ایک بڑی تعداد رجسٹرڈ تک نہیں ہے۔
طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کی تشخیص ہی اس وقت ہوتی ہے جب بیماری اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہوتی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق پاکستان میں کئی مریضوں کو اپنی بیماری سے متعلق علم تک ہی نہیں ہوتا۔
اس بیماری کے شکار افراد کو یہی معلوم نہیں کہ یہ بیماری لاعلاج ضرور ہے تاہم اس کے باوجود علاج کے کچھ طریقوں کا استعمال کر کے ان کی زندگیوں کو دوام دیا جا سکتا ہے اور انہیں متعدد پیچیدگیوں سے بچایا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھی پاکستانی صارفین کی جانب سے اس وائرس سے تحفظ کے لیے شعور و آگہی میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق سوشل میڈیا صارف فرح ناز زاہدی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ پاکستان کو کس طرح ایچ آئی وی سے بچایا جا سکتا ہے؟
ایک اور صارف رمشا کنول کے مطابق پاکستان ایڈز سے متاثر ہو رہا ہے اور کراچی سب سے آگے ہے۔
ٹوئٹر صارف ماہم جی کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ تینتیس ہزار سے زائد افراد ایچ آئی وی کا شکار ہیں اور یہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔