چینی بحران: جہانگیرترین، خسروبختیار فائدہ اٹھانے والوں میں شامل

چینی بحران: جہانگیرترین، خسروبختیار فائدہ اٹھانے والوں میں شامل

چینی بحران کی تحقیقات رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی گئی۔ رپورٹ نے شوگر انڈسٹری کے سیاسی اثر و رسوخ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔

وزیراعظم کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق اس سال چینی کی پیداوار گزشتہ برس کی نسبت ایک فیصد زیادہ ہوئی تھی۔

انکوائری  کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق چینی بحران کی وجہ دو ہزار اٹھارہ میں چینی برآمد کرنے کا فیصلہ اور اس کے لیے پنجاب حکومت کی تین ارب روپے کی سبسڈی بنا۔

رپورٹ کے مطابق دوہزار اٹھارہ میں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ملک میں چینی سرپلس تھی۔ شوگر ایڈوائزری بورڈ نے دس لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دی۔ بورڈ کا اجلاس مشیرتجارت عبدالرزاق داؤد کی  سربراہی میں ہوا  تھا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی حالانکہ سیکریٹری خوراک آئندہ برس شوگر کی  پیداوار کم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی اور پنجاب حکومت نے برآمد پر سبسڈی کا بھی اعلان کردیا۔

رپورٹ کے مطابق مقامی  مارکیٹ میں قیمتیں بڑھتی رہیں اور شوگرانڈسٹری چینی کو بیرون ملک بیچتی رہی۔ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت پچپن روپے سے بڑھ کر اکہتر روپے تک جاپہنچی۔ شوگر ملز مالکان  نے اس طرح دہرا منافع کمایا۔ تین ارب روپے کی سبسڈی میں اپنا حصہ کمایا اور مقامی  مارکیٹ میں مہنگی چینی سے بھی منافع بٹورا۔

شوگر کمیٹی کے مطابق چینی کی برآمدی سبسڈی کا بائیس فیصد صرف جہانگیرترین کے جے ڈبلیو ڈی گروپ کے  حصے میں گیا جو چھپن کروڑ دس لاکھ روپے بنتے ہیں۔

چینی بحران: جہانگیرترین، خسروبختیار فائدہ اٹھانے والوں میں شامل

چینی کی برآمد سے فائدہ اٹھانے والوں میں دوسرا نمبر رحیم یار خان گروپ کا ہے جس کا مالک مخدوم عمر شہریار خان ہے جو کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار کا بھائی  ہے۔ اس گروپ نے مجموعی سبسڈی  کا اٹھارہ فیصد یعنی  پینتالیس کروڑ بیس لاکھ روپے حاصل کیے۔ اس گروپ میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے سمدھی چودھری منیر اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الٰہی بھی حصہ دار ہیں۔ برآمدی  سبسڈی سے سولہ فیصد یعنی چالیس کروڑ ساٹھ لاکھ حاصل  کرنے والا گروپ شمیم  احمد خان کا المعیز گروپ تھا۔

تحقیقاتی کمیٹی کے  مطابق چینی برآمد کرنے سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ تھے اور یہ پالیسی سازی میں براہ راست شامل بھی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس فیصلے اور منافع خوری کا حالیہ چینی بحران سے براہ راست تعلق ہے۔

رپورٹ میں پیشگی خریداری اور سٹے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جس سے رمضان میں چینی کی قیمت سو روپے کلو تک جاسکتی ہے۔ کمیٹی کے مطابق اس میں شوگر ملز اور ہول سیل ڈیلرز سب شامل ہیں۔ وفاقی حکومت تحقیقاتی کمیشن بنائے تو ذمہ دار سامنے آسکتے ہیں۔

تحقیقاتی  کمیٹی نے کہا ہے کہ شوگر ایڈوائزری برآمد کی اجازت دیتے وقت یہ اندازہ نہیں لگا سکا  کہ آئندہ سال پیداوار کم ہوگی۔ لیکن جب برآمد کے پہلے ہی پانچ ماہ کے دوران چینی کی قیمت سولہ سے سترہ روپے کلو بڑھی تب بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

چینی بحران: جہانگیرترین، خسروبختیار فائدہ اٹھانے والوں میں شامل

رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ  سال کے دوران چینی کی  برآمد پر پچیس ارب روپے  کی سبسڈی دی گئی ہے۔ پانچ سال کے دوران سب سے زیادہ سبسڈی رحیم یار خان گروپ کو ملی جس کی مالیت  چار ارب روپے ہے۔

جہانگیرترین کا جے  ڈبلیو ڈی گروپ تین ارب روپے کے ساتھ دوسرے اور ہنزہ گروپ دو ارب اسی کروڑ روپے سبسڈی کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

فاطمہ گروپ کو پانچ سال کے دوران دو ارب تیس کروڑ، شریف گروپ کو ایک ارب چالیس کروڑ، اور اومنی گروپ کو نوے کروڑ دس لاکھ روپے سبسڈی ملی۔

چینی کی برآمدات پر مسلسل سبسڈی سے واضح ہوتا ہے کہ تمام حکومتوں میں شوگر انڈسٹری کا اثرورسوخ رہا ہے۔ سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والی ملیں دوسروں سے زیادہ پیسہ  کماتی ہیں اور گنے پر منافع کی وجہ سے ملک میں کپاس کی کاشت کم ہوتی جا رہی ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت تحقیقاتی کمیشن بنائے جو شوگر انڈسٹری کا فرانزک آڈٹ کرکے حقائق سامنے لائے۔ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور آئندہ کے لیے زرعی منصوبہ بندی بھی کی جائے۔

x

Check Also

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

نواز شریف، آصف زرداری اور دیگر سیاستدانوں کے 80 کرپشن کیسز بحال

سلام آباد:مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف،سابق صدر آصف علی زرداری اور ...

%d bloggers like this: