گوگل اور الفابیٹ کے سی ای او سندر پچائی نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے حوالے سے نئے ضوابط کا مطالبہ کرتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے خطرات جیسے چہرے کی شناخت اور ڈیپ فیکس وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔ فنانشنل ٹائمز کے لیے ایک مضمون میں سندرپچائی نے لکھا 'آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے میرے ذہن میں کوئی شک نہیں، یہ بہت اہم ہے، بس واحد سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے'۔ اگرچہ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے نئے ضوابط کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ اے آئی کے متعدد پہلوﺅں کے بارے میں محتاط سوچ پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ مصنوعات جیسے خودکار ڈرائیونگ گاڑیوں وغیرہ کے لیے نئے مناسب قوانین متعارف کرائے جانے چاہیے، مگر دیگر پہلوﺅں جیسے طبی سہولیات کے لیے موجودہ فریم ورک کا اطلاق اے آئی پر کام کرنے والی مصنوعات پر ہونا چاہیے۔ ان کے بقول 'ہماری جیسی کمپنیوں کو صرف نئی ٹیکنالوجی کو تیار کرنے اور مارکیٹ کو انہیں استعمال کرنے کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقینی بنایا چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی ہر ایک کو دستیاب ہونے کے ساتھ اچھے مقاصد کے لیے استعمال کی جاسکے'۔ الفابیٹ دنیا کی چند اہم ترین اے آئی کمپنیوں میں سے ایک ہے اور سندربچائی نے زور دیا کہ عالمی ضابطوں کی تشکیل کے بارے میں بین الاقوامی ہم آہنگی بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت امریکا اور یورپی یونین کے آئی اے کے بارے میں ضابطے کافی حد تک مختلف ہیں، وائٹ ہاﺅس کی جانب سے ایسے قوانین کی حمایت کی جاتی ہے جو اسے آگے بڑھانے میں رکاوٹ نہ بن سکیں جبکہ یورپی یونین کی جانب سے براہ راست مداخلت پر غور کیا جارہا ہے، جیسے چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی پر 5 سال کی پابندی وغیرہ۔ امریکا اور یورپی یونین کے قوانین میں تضاد کی وجہ سے گوگل جیسی کمپنیوں کو اضافی اخراجات اور تیکنیکی چیلنجز کا سامنا ہے۔ مگر سندرپچائی نے اپنے مضمون میں اس حوالے سے کمپنی کے اپنے ضابطوں پر بھی بات کی اور ان کا کہنا تھا 'کمپنی کے اصول و ضوابط ٹیکنالوجی کے مخصوص استعمال جیسے بڑے پیمانے پر لوگوں کی نگرانی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی وغیرہ کی سپورٹ پر پابندی عائد کرتے ہیں'۔ انہوں نے کہا کہ اے آئی ٹیکنالوجیز کے خطرات اور مثبت پہلوﺅں کے درمیان توازن کی ضرورت ہے۔

سندر بچائی کا اے آئی ٹیکنالوجی کے لیے نئے قوانین کا مطالبہ

گوگل اور الفابیٹ کے سی ای او سندر پچائی نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے حوالے سے نئے ضوابط کا مطالبہ کرتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے خطرات جیسے چہرے کی شناخت اور ڈیپ فیکس وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔

فنانشنل ٹائمز کے لیے ایک مضمون میں سندرپچائی نے لکھا ‘آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے میرے ذہن میں کوئی شک نہیں، یہ بہت اہم ہے، بس واحد سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے’۔

اگرچہ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے نئے ضوابط کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ اے آئی کے متعدد پہلوﺅں کے بارے میں محتاط سوچ پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ مصنوعات جیسے خودکار ڈرائیونگ گاڑیوں وغیرہ کے لیے نئے مناسب قوانین متعارف کرائے جانے چاہیے، مگر دیگر پہلوﺅں جیسے طبی سہولیات کے لیے موجودہ فریم ورک کا اطلاق اے آئی پر کام کرنے والی مصنوعات پر ہونا چاہیے۔

ان کے بقول ‘ہماری جیسی کمپنیوں کو صرف نئی ٹیکنالوجی کو تیار کرنے اور مارکیٹ کو انہیں استعمال کرنے کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقینی بنایا چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی ہر ایک کو دستیاب ہونے کے ساتھ اچھے مقاصد کے لیے استعمال کی جاسکے’۔

الفابیٹ دنیا کی چند اہم ترین اے آئی کمپنیوں میں سے ایک ہے اور سندربچائی نے زور دیا کہ عالمی ضابطوں کی تشکیل کے بارے میں بین الاقوامی ہم آہنگی بھی انتہائی ضروری ہے۔

اس وقت امریکا اور یورپی یونین کے آئی اے کے بارے میں ضابطے کافی حد تک مختلف ہیں، وائٹ ہاﺅس کی جانب سے ایسے قوانین کی حمایت کی جاتی ہے جو اسے آگے بڑھانے میں رکاوٹ نہ بن سکیں جبکہ یورپی یونین کی جانب سے براہ راست مداخلت پر غور کیا جارہا ہے، جیسے چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی پر 5 سال کی پابندی وغیرہ۔

امریکا اور یورپی یونین کے قوانین میں تضاد کی وجہ سے گوگل جیسی کمپنیوں کو اضافی اخراجات اور تیکنیکی چیلنجز کا سامنا ہے۔

مگر سندرپچائی نے اپنے مضمون میں اس حوالے سے کمپنی کے اپنے ضابطوں پر بھی بات کی اور ان کا کہنا تھا ‘کمپنی کے اصول و ضوابط ٹیکنالوجی کے مخصوص استعمال جیسے بڑے پیمانے پر لوگوں کی نگرانی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی وغیرہ کی سپورٹ پر پابندی عائد کرتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی ٹیکنالوجیز کے خطرات اور مثبت پہلوﺅں کے درمیان توازن کی ضرورت ہے۔

x

Check Also

دنیا کی 90 بڑی کمپنیوں نے فیس بک پر اشتہارات کا بائیکاٹ کردیا

دنیا کی 90 بڑی کمپنیوں نے فیس بک پر اشتہارات کا بائیکاٹ کردیا

نسل پرستی، تشدد، جھوٹ اور نفرت کے خلاف دنیا کی 90 سے زائد بڑی کمپنیوں ...

%d bloggers like this: