فرہنگِ آصفیہ سے رجوع

تحریر: امتیاز عالم

ہمارے یار فیصل واوڈا نے اپوزیشن کو جوتا کیا دکھایا کہ وہ جوتیاں بغل میں دبا بھاگ نکلی۔ واوڈا نے اپوزیشن کو جوتی کیا پہنائی کہ سیاستدان باہم جوتی پیزار ہو گئے۔ کسی میں جوتا دکھانے یا جوتے کی نوک پہ رکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اب ووٹ کو عزت دو والے جوتیاں سیدھی کرتے پھریں،جمہوری رائے عامہ میں جوتیاں تو پڑنا ہی ہیں خواہ کیسے ہی جوتا چھپایا کئیں۔ حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں میں جوتوں میں دال بٹ رہی ہے تو ہمارے پرانے جوتے کے یار جوتی پہننے پہ تیار۔ ایسے میں کوئی جوتا اُٹھائے گا بھی تو کس کے بل پر۔ فیصل واوڈا کی طرف سے ٹی وی پروگرام میں جوتا لانے نے ہماری حسِ مزاح کو ایسی انگیخت بخشی ہے کہ سیّد احمد دہلوی کی فرہنگِ آصفیہ کی جلد دوم کے صفحات 57 اور 58 پہ درج جوتے کے محاورے یاد آ گئے۔ کبھی گمان بھی نہ تھا کہ سیاست کو خود سیاستدانوں کے ہاتھوں یوں جوتیاں پڑیں گی! گو کہ جوتی دکھائی بھی حقِ اظہار ہی کی ایک ناپسندیدہ صورت ہے۔ واوڈا پہ اس کی کرشمہ سازی کی توصیف کرنے پہ بندش ہو یا اینکر کاشف عباسی پہ وقتی قدغن، ہے تو بندش۔ دُنیا بھر میں سیاستدانوں پر جوتے اُچھالے جاتے ہیں اور وہ سرِعام جوتم پیزار ہوتے ہیں۔ ایسے میں واوڈا کی جوتا نمائی پہ کیا جوتا مارنا، پشیماں ہوں تو وہ جو جوتا کھانے پہ تیار (اگر کوئی حسِ پشیمانی باقی بچ رہ گئی ہے تو)۔

لیکن جوتیوں کی اس برسات میں پاکستان بار کونسل کے نومنتخب صدر عابد ساقی کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں جو قراردادیں پاس ہوئیں تو لگا کہ ابھی مزاحمت کار باقی ہیں۔ ان قراردادوں میں کہا گیا ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمہ کی سماعت کے لیے تشکیل دی گئی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ کے دائرئہ اختیار سے باہر تھا اور خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں ہی اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا پاکستان بار کونسل نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پہ تعجب کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے جوڈیشل کمیشن کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے طریقۂ کار پر سوالات اُٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ کو آئین کے آرٹیکل 175-A میں ترمیم کی تجویز دیتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ ججوں کی تقرریوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین معنی خیز مشاورت ضروری ہے اور شفاف طریقے سے ہی ججوں کی میرٹ پر تقرریاں کی جائیں۔ اس سے قبل اسلام آباد میں ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے منعقدہ سیمینار میں ملک کے چوٹی کے انسانی حقوق کے مبلغین اور دانشوروں نے غیرجمہوری قوتوں کی جانب سے سیاسی انجینئرنگ اور منتخبہ احتساب کے ہاتھوں جمہوری عمل کو پہنچنے والے شدید نقصان کی نشاندہی کرتے ہوئے سیاسی قیادت کو پارلیمنٹ کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عوام کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپیل کی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن نے جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں بارے جوڈیشل کمیشن کی کارروائیوں کے نتائج سے عوام کو آگاہ کیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خصوصاً خفیہ ایجنسیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ کیا جائے اور انٹرنمنٹ کیمپس (Internment Camps)کا خاتمہ کیا جائے۔ کمیشن نے آزادیٔ اظہار پہ لگی بندشوں کے خاتمے اور آزادیِ صحافت کی بحالی پہ زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ میڈیا اور صحافیوں کے خلاف جاری مہم ختم کی جائے۔ عدلیہ پہ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے کمیشن نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ آئین شکنی کے مرتب ہونے والوں کا محاسبہ کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف دیئے گئے فیصلے کو اُلٹ دے تاکہ آئین کی حکمرانی یقینی بنائی جا سکے۔ سیاسی گنگا اُلٹی بہہ نکلی ہے۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ کہیں بیمار پڑا جوتیاں چاٹ رہا ہے اور جمہوری عبور کی حاصلات جوتے کی نوک پر۔ جنرل مشرف کی ایمرجنسی پلس کی آئین شکنی کے خلاف عدلیہ کی بحالی کی جو جدوجہد خصوصی عدالت کے فیصلے پہ منتج ہوئی تھی، وہ منقسم نظر آئی۔ آئین شکنی کے خلاف آئینی فیصلہ ہی آئین شکنی ٹھہرا۔ دہائیوں کی جمہوری مزاحمت کا اسقاط ہوا اور اس کے ساتھ ہی منتخب و سویلین اداروں کا اخلاقی انہدام۔ ان سب گناہوں کا دوش کوئی کسی کو کیوں دے۔ اس زبوں حالی کے سبھی ذمہ دار ہیں۔ منتخب نمائندے اور سیاسی جماعتیں بھی، عدلیہ بھی اور سول انتظامیہ بھی، میڈیا بھی اور سول سوسائٹی بھی۔

تاریخ میں ایسا ہوتا آیا ہے اور ہماری تاریخ تو آمریت اور جمہوریت، سویلین حکمرانی اور مارشل لاز، انسانی حقوق کی پامالی اور بازیابی کا ایک خونچکاں سلسلہ ہے جو ختم ہوتے ہوتے پھر سے آن دبوچ لیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جس عظیم عوامی اُبھار اور آمرانہ قوتوں کی شکست کے نتیجہ میں آدھے ملک کی قربانی دے کر 1973 کا جو آئینی عمرانی معاہدہ ہوا وہ برقرار رہنے کے باوجود بار بار توڑا جاتا رہا اور اب اپنی آئینی رمق گنوا بیٹھا ہے۔ بظاہر پارلیمنٹ ہے، لیکن جمہوری آب و تاب کے بغیر، آزاد عدلیہ بھی ہے لیکن آئینی حکمرانی طاقتی ڈھانچے کے سامنے بے بس ہو کے رہ گئی ہے۔ اب آئین شکنی غداری نہیں بلکہ حب الوطنی کا اعلیٰ وصف ٹھہری۔ لیکن یہ طاغوتی سلسلہ چلنے والا نہیں۔ بالآخر پاکستان نے جمہوریہ بننا ہے۔ حقیقی اور عوام کی حکمرانی قائم ہونی ہے۔ آج نہیں تو کل اور آپ سُن ہی رہے ہیں کہ پورے بھارت میں فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘ عوامی مزاحمت کا ترانہ بن کر گونج رہی ہے اور جب یہ ترانہ پاکستان کے عوام کی زبان پہ آئے گا تو آمریت کے کوہِ گراں روئی کی طرح اُڑ جائیں گے۔ لاہور میں 16 فروری کو فیض امن میلے میں بھی نوجوان ’’ہم دیکھیں گے‘‘ کا نعرئہ مستانہ لگائیں گے، جس کا کہ وعدہ ہے۔ لیکن تاریخ کب اس وعدے کی تکریم کرتی ہے کسے معلوم؟

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

x

Check Also

بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ ڈالر کب؟

بٹ کوائن، ایتھریم سمیت بڑی کرپٹو کرنسیز کی قیمتیں گزشتہ چند ہفتے سے اتار چڑھاؤ ...

%d bloggers like this: