تحریر: منصور آفاق
وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہےکہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے۔ قاف لیگ نے بھی کہہ دیا کہ ہمیں عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں اُن کے خلاف تو فواد چوہدری بولے ہیں۔ بے شک فواد چوہدری کو نہیں بولنا چاہئے تھا۔
وہ بھی اُس مخصوص گروہ کے پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے جنہیں سرائیکی علاقے کا ایک عام سا نوجوان پنجاب کے حکمران کی حیثیت سے پسند نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں عثمان بزدار کے اقدامات کو نہ سراہنا زیادتی ہے۔
مالی بحران کے باوجود انہوں نے 8نئی یونیورسٹیوں اور 9اسپتالوں کا آغاز کیا ہے جس میں 10000بستروں کا اضافہ کیا گیا ہے، اس نے 25000میڈیکل پروفیشنلز کی شفاف بھرتیاں کیں، میرٹ پر تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز لگائے، 1500کلومیٹر دیہی سڑکیں بنوائیں، کابینہ کو بااختیار بنایا۔
وزرا، بیورو کریسی کو آزادانہ کام کا موقع فراہم کیا، میڈیا اور مخالفین کی تنقید کو احسن طریقے سے برداشت کیا۔ کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جسے غلط کہا جا سکے۔ غریبوں کا خیال رکھا۔ بے گھروں کے لئے چھتیں فراہم کیں۔
وہ جانتے ہیں کہ کسی معاشرے پر پہلا حق اُس کے معذور اور کمزور لوگوں کا ہوتا ہے۔ پنجاب میں کوئی میگا کرپشن اسکینڈل نہیں۔ گزشتہ حکومتوں میں کرپشن کس انتہا پر تھی، کون نہیں جانتا کہ انہی کی بدولت پوری قوم اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوئی۔
ذرا سوچئے غریب لوگوں کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ اب پتا چلا کہ کئی لوگ جنہوں نے یہ رقم حاصل کی، غرباء کے زمرے میں نہیں آتے۔ یعنی آٹھ لاکھ بیس ہزار لوگوں نے جھوٹ بول کر، جعل سازی کرکے انکم سپورٹ حاصل کی۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمارے حال پر کرم فرمائے۔ کیا کہوں کہ ہم اخلاقی پستیوں کی کون سی گراوٹ میں پہنچ چکے ہیں۔ پھر اس سے بھی بڑا ستم یہ ہوا کہ ان آٹھ لاکھ لوگوں میں صرف 14ہزار سرکاری ملازمین کو شو کاز نوٹس جاری ہوئے۔ باقی لوگوں کو کچھ نہیں کہا گیا، اُن کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی۔ ان میں 3لاکھ سے زائد ایسے افراد شامل ہیں جو جہازوں پر سفر کرتے ہیں۔ بیرونِ ملک جاتے آتے ہیں۔
اپنے پاسپورٹ ایگزیکٹیو فیس جمع کرا کے بنواتے ہیں۔ اگر ان آٹھ لاکھ لوگوں سے غریبوں کا مال واپس نہ لیا جائے، انہیں سزا نہ دی گئی، انہیں جرائم پیشہ افراد کی لسٹ میں شامل نہ کیا گیا تو میں سمجھوں گا کہ پھر یہ نظام کسی ڈسٹ بن میں پھینک دینے کے قابل ہے۔ چین میں اِسی کرپشن کی سزا موت ہے۔ اسلام نے اِسی چور ی پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔
جن سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرفی کے شو کاز نوٹسز جاری کیے گئے ہیں ان سے جواب طلب کیا گیا ہے، یعنی موقع دیا گیا ہے کہ وہ کسی طرح اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں۔ یہ بات کسی قیامت سے کم نہیں کہ یہ گریڈ 17سے 21کے افسران ہیں۔
انہیں فوری طور پر برطرف کرکے جعل سازی کے جرم میں جیل بھیج دینا چاہئے۔ یہ سلسلہ کوئی آدھ ماہ کا نہیں، سالہا سال سے یہ لوگ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے جعلسازی کر کے غریبوں کا مال پر ہاتھ صاف کرتے چلے آرہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں پیش کردہ تفصیلات کے مطابق ان میں گریڈ 17سے 21کے 2ہزار 543افسران شامل ہیں۔ گریڈ 17کے 1ہزار 446، گریڈ 18کے 604، گریڈ 19کے 429، گریڈ 20کے 61، اور گریڈ 21کے 3افسران شامل ہیں۔
کرپشن کے راج کا دورانیہ تقریباً چالیس پینتالیس سال پر مشتمل ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار سے آج تک کسی نہ کسی سطح پر کرپشن جاری و ساری ہے۔ سفارش تو برائی رہی ہی نہیں، رشوت ستانی کو بھی اب برا نہیں سمجھا جاتا۔
اسے کمیشن کا انگریزی نام دے دیا گیا۔ ہوس پرستی اور زر پرستی کا یہ مزاج قوم کی رگوں میں اتر چکا ہے۔ اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ پر کسی کو کبھی بڑی سزا ہوئی ہی نہیں حالانکہ یہ وہ جرم ہے مہذب معاشروں میں جس کی سزا عمر قید تک ہے۔ ہم ذاتی زندگی سے اجتماعی زندگی تک کرپشن کے حصار میں ہیں۔
تحریک انصاف اسی تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئی تھی، کرپشن کا خاتمہ عمران خان کا بنیادی منشور تھا بلکہ ہے، مگر دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ ضمیروں پر مسلط مافیا نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ معاملہ صرف شریف اور زرداری خاندان کی کرپشن تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ باقی لٹیروں سے بھری اشرافیہ اسی طرح لوٹ مار کر رہی ہے۔
پچھلے دنوں عمران خان میانوالی آئے تو ان سے کہا گیا کہ میانوالی میں ڈرائیونگ لائسنس بنانے کیلئے 25ہزار روپے رشوت لی جا رہی ہے۔ یقیناً عمران خان نے اُس کا نوٹس لیا ہوگا مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجتماعی طور پر اس کرپشن سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔
صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بھی کہا ہے:بدعنوانی پوری انسانیت پرحملہ ہے۔ ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ معاشرے کو اس ناسور کے خلاف مہم میں اجتماعی طور پر کردار ادا کرنا ہوگا۔
بدعنوانی پرقابو پائے بغیر پاکستان ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔‘‘ مگر کیسے۔
میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ابھی تک پاکستان کا اہم ترین مسئلہ کرپشن ہے۔ ابھی تک بقول فیضؔ
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھولے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب اللہ فی الارض، دہقاں کے نام
جس کی ڈوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے اک انگشت پتوار سے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوئوں سے سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں