خریداری کے دوران آپ زیادہ رقم کیوں خرچ کر بیٹھتے ہیں؟

خریداری کے دوران آپ زیادہ رقم کیوں خرچ کر بیٹھتے ہیں؟

اپنے لیے کافی کا کپ خریدتے وقت شاید آپ نے دیکھا ہو کہ درمیانے کپ کی قیمت تقریباً اتنی ہی ہوتی ہے جتنی بڑے کپ کی۔ اس قسم کی پرکشش پیشکش کی صورت میں آپ نے کبھی مہنگا سودا کیا ہے اور زیادہ قیمت والی چیز خریدی ہے؟

اگر آپ نے مہنگا سواد خریدا ہے تو اس کی وجہ آپ کی دماغ میں آنے والی یہ سوچ ہوتی ہے جسے ’ڈیکوائے افیکٹ‘ یا ’فریب کا اثر‘ کہتے ہیں۔

اس قسم کے فریب یا دھوکے میں ہوتا یہ ہے کہ آپ وہ چیز خرید لیتے ہیں جو نسبتاً مہنگی ہوتی ہے، یعنی آپ کافی کا درمیانہ سائز کا کپ خریدنے کی بجائے اکثر بڑا کپ خرید لیتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ قیمت میں تھوڑا سا فرق ہے تو میں بڑا کپ ہی کیوں نہ خرید لوں۔ یوں آپ ڈیکوائے افیکٹ کی وجہ سے عقلی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ دھوکے میں آ جاتے ہیں۔

اس حوالے سے امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی سے منسلک ماہرِ نفسیات لِنڈا چینگ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کسی پیشکش کو ایک خاص انداز میں لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں تو اس سے خریدار کی توجہ خود بخود زیادہ قیمت والی چیز کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔‘

اگرچہ ڈیکوائے افیکٹ پر شروع شروع میں تحقیق اس لیے کی گئی کہ اسے مارکیٹنگ کے لیے کیسے استعمال کیا جاتا ہے، تاہم تازہ ترین تحقیق میں یہ سامنے آیا ہے کہ آپ یہ گُر ملازمین کی بھرتی، صحت عامہ اور حتیٰ کہ سیاست میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس تناظر میں ہمارے سامنے کوئی حقائق پیش کیے جاتے ہیں، اس کی مدد سے ہماری سوچ کو کتنی آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اضافی معلومات سے ہمارے کسی چیز کو لینے یا اسے رد کرنے کے بنیادی فیصلے پر کوئی بہت زیادہ اثرات نہ مرتب ہوں، تب بھی اس تناظر یا انداز کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگر آپ کو اس قسم کے فریب کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہوں، تو ہو سکتا ہے کہ آپ زیادہ جلدی دھوکے میں نہ آئیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ آپ دوسروں کو قائل کرنے کے لیے خود یہی گُر استعمال کرنا شروع کر دیں۔

دوسرے کئی ان بدنام زمانہ فریبوں کی طرح جو ہماری سوچ کو متاثر کرتے ہیں، ڈیکوائے افیکٹ کے بارے میں بھی پہلی مرتبہ ماہرین نے سنہ 1980 کی دہائی میں لکھنا شروع کیا، اور اسے سمجھنے کا بہترین طریقہ ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔

تصور کریں کہ آپ کو مندرجہ ذیل پروازوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

فلائٹ اے، جس کی ٹکٹ 400 ڈالر کا ہے اور اس میں پرواز بدلنے کے لیے آپ کو 60 منٹ انتظار کرنا پڑے گا۔

فلائٹ بی، جس کا ٹکٹ 350 ڈالر کا ہے اور اس میں پرواز بدلنے کے لیے آپ کو 150 منٹ انتظار کرنا ہو گا۔

فلائٹ سی، جس کا ٹکٹ 435 ڈالر کا ہے اور اس میں آپ کو 60 منٹ انتظار کرنا ہو گا۔

اس تحقیق میں ماہرین نے دیکھا کہ لوگوں کی اکثریت نے فلائٹ اے کا انتخاب کیا کیونکہ اس کا ٹکٹ فلائٹ سی سے سستا تھا اور انتظار بھی کم تھا۔ یہ پرواز فلائٹ بی سے خاصی سستی بھی تھی، لیکن پھر بھی لوگوں نے پہلی پرواز کا ہی انتخاب کیا۔

اگر آپ عقلی لحاظ سے دیکھیں تو اس کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ اس دوسری مثال میں بھی فلائٹ بی کو پہلی مثال کی طرح زیادہ پرکشش نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ دونوں کی قیمت میں کوئی فرق نہیں اور انتظار میں بھی صرف 45 منٹ کا فرق ہے۔

لیکن دوسری مثال میں چونکہ فلائٹ سی میں انتظار کا وقت مزید بڑھ گیا ہے، اس لیے لوگوں نے ایک ایسی فلائٹ کو ترجیح دی جو فلائٹ اے کے مقابلے میں سستی تھی، چاہے اس میں انتظار کی زحمت زیادہ تھی۔

ان دونوں مثالوں میں فلائٹ سی ایک دھوکے یا ڈیکوائے کی طور پر رکھی گئی ہے جو دیکھنے میں تو دوسری دونوں پروازوں سے ملتی جلتی ہے، یعنی ان پروازوں سے ملتی جلتی ہے جو آپ اصل میں فروحت کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ ان مثالوں میں خریدار کو موقع دیا گیا کہ وہ دیگر دو پروازوں کا موازنہ فلائٹ سی سے کر سکتا ہے، اس سے اس کی توجہ فلائٹ بی کی جانب زیادہ مائل ہو گئی۔

اس قسم کی مثالوں کی مدد سے کیے جانے والے نفسیاتی تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر آپ کسی فریب کو بڑے اچھے انداز میں پیش کرتے ہیں تو اس بات کے امکانات 40 فیصد زیادہ ہو جاتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ دوسری دو چیزوں کی جانب مبذول ہو جاتی ہے۔

جیسے ان مثالوں میں لوگوں نے پہلے فلائٹ اے کو ترجیح دی اور پھر فلائٹ بی کو۔ ان تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب معلومات کو ایک خاص انداز میں پیش کیا جاتا ہے تو لوگوں کی توجہ کو آسانی کے ساتھ اس جانب مبذول کیا جا سکتا ہے جہاں آپ کرانا چاہتے ہیں۔

ایک نہیات اہم چیز یہ بھی ہے کہ جب آپ اپنی فہرست میں کوئی فضول سے پیشکش بھی شامل کر دیتے ہیں تو لوگ زیادہ پیسے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز ہمیں پہلی مثال میں نظر آتی ہے جب خریداروں نے مہنگی ہونے کے باوجود فلائٹ اے کا انتخاب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹنگ کی دنیا کے لوگ ڈیکوائے افیکٹ میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔

ماہرینِ نفسیات ابھی تک بحث کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، تاہم ایک خیال یہ ہے کہ جب ہمیں ایک بے معنی سے پیشکش کے ساتھ موازنہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تو ہم زیادہ سوچے بغیر دوسری پیشکش کا انتخاب کر لیتے ہیں اور ہم خود کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم نے ٹھیک چیز کا انتخاب کیا ہے۔

مثلاً اوپر دی گئی مثالوں میں اگر آپ کو صرف اے اور بی میں سے انتخاب کا کہا جاتا تو آپ کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی کہ زیادہ قیمت اور زیادہ انتظار میں سے کس چیز کو ترجیح دیتے۔ یوں آپ سوچنے لگ جاتے کہ 90 منٹ زیادہ انتظار کی کیا قیمت ہونی چاہیے؟ لیکن جب فلائٹ سی کے مقابلے میں فلائٹ اے یا بی آپ کو واضح بہتر دکھائی دیتی ہے تو آپ کو ان دونوں کا انتخاب کرنے کی وجہ مل جاتی ہے۔

اس قسم کے رویے کا مشاہدہ بہت سی دیگر مصنوعات میں بھی کیا جا چکا ہے، جس میں بیئر کے ڈبے سے لیکر ٹیلیویژن سیٹ، کاریں، مکانات، سب کچھ شامل ہے۔ ہر مثال میں دیکھا گیا ہے کہ جب آپ خریدار کے سامنے ایک تیسری پیشکش رکھتے ہیں جو زیادہ پرکشش نہیں ہوتی، تو وہ دوسری دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیتا ہے۔

اس قسم کے فریب کا استعمال نہایت مہنگی مصنوعات کی فروخت میں بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی تحقیق میں ہیروں کی خرید و فروخت میں بھی اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق جب خریدار کے سامنے قدرے کم معیار کا ہیرا رکھا جاتا ہے جو اتنا ہی منگا ہوتا ہے جتنا دوسرے ہیرے، تو اس سودے میں بھی دکاندار کو 20 فیصد زیادہ منافع ہو سکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ضروری نہیں ہر شخص اس قسم کے دھوکے کا شکار ہو جائے، کیونکہ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہمارا دماغ کیسے کام کرتا ہے، ہم سوچتے کیسے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ لوگوں کو کوئی سوالنامہ دیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آیا لوگ اپنے دل کی زیادہ سنتے ہیں، یا وہ تجزیہ کر کے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جو لوگ اپنی چھٹی حس پر بھروسہ کرتے ہیں، وہ دوسروں کی نسبت زیادہ آسانی سے فریب میں آ جاتے ہیں۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ آپ کے جسم میں موجود ہارمونز بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً اگر جن لوگوں میں ٹیسٹوسٹرون یا فوطیرون زیادہ ہوتا ہے وہ زیادہ سوچتے نہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے فریب کھانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

کون دھوکے کا شکار زیادہ یا کم ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ سائنسدانوں نے اس بات کا مطالعہ بھی کیا ہے کہ مختلف تناظر میں ڈیکوائے افیکٹ کیسے اثرانداز ہوتا ہے۔

مثلاً، اسی موضوع پر ایک کتاب کے مصنف ڈین اریلی کی تحقیق کے مطابق ڈیکوائے افیکٹ کے اثرات کو ڈیٹنگ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق اگر کوئی مرد یا خاتون کسی ایسے مرد یا خاتون کے ساتھ نظر آئے جو شکل و صورت میں تو ایک جیسے ہوں لیکن ایک میں کشش تھوڑی کم ہو تو لوگ اکثر زیادہ کشش والے مرد یا خاتون کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر آپ ڈیٹنگ کے لیے ’ٹِنڈر‘ کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آپ کو کوئی مرد یا عورت زیادہ پرکشش دکھائی دی رہی ہے تو اس کا انحصار اس پر ہو سکتا ہے کہ اس تصویر سے پہلے آپ نے کون سی تصویر دیکھی تھی۔

ڈیکوائے افیکٹ اس بات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے کہ ہم انتخابات میں کسے ووٹ دیتے ہیں اور کن افراد کو ملازمت دیتے یا نہیں دیتے۔

مارکیٹنگ کے برعکس الیکشن یا ملازمت کے لیے آنے والے امیدواروں میں ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کو آپ کو فریب دینے کے لیے ڈیکوائے کے طور پر دانستہ شامل نہیں کیا گیا ہو، لیکن اگر آپ کے سامنے ایسے دو امیدوار آ جاتے ہیں جو ایک جیسے ہوں، لیکن ایک تھوڑا سا بہتر ہو، تو آپ اُس کی جانب مائل ہو جائیں گے۔

ماہر نفسیات لِنڈا چینگ نے ملازمین کی بھرتی کے فیصلوں پر ڈیکوائے افیکٹ کے اثرات پر تحقیق بھی کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ چونکہ اب درخواستوں کی چھانٹی زیادہ تر کمپیوٹر کے ذریعے ہو رہی ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ چیز آنے والے وقت میں ایک مسئلہ بن جائے۔

’یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے سامنے جن امیدواروں کو پیش کیا جا رہا ہے وہ تمام جعلی یا ڈیکوائے ہوں تو یوں آپ کے ذہن کو ایک خاص سمت میں موڑا جا سکتا ہے۔ اس سے صرف وہ کمپنیاں نہیں متاثر ہوں گی جو ملازمتیں دلواتی ہیں، بلکہ حالیہ تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ کسی ایک خاص امیدوار کے انتخاب کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کو کس قسم کی مراعات پسند ہیں۔‘

دوسری جانب برطانیہ میں کچھ سائنسدان اس بات کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ ڈیکوائے افیکٹ سے صحت عامہ کے میدان میں مثبت کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ ان سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آپ اس ٹکنیک کے استعمال سے لوگوں کو زیادہ صحت مندانہ چیزوں کی جانب مائل کر سکتے ہیں۔

اس حوالے سے یونیورسٹی کالج لندن سے منسلک، انسانی رویوں اور صحت کے ماہر کرسچن وان ویگنر نے حال ہی میں ایک تحقیق کی ہے جس میں انہوں نے دیکھا کہ آیا لوگ بڑی آنت کے سرطان کا ٹیسٹ کروانا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگرچہ یہ ٹیسٹ بہت اہم ہے، لیکن اس کے لیے جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ کئی لوگوں کے لیے ایک ناگوار تجربہ ہوتا ہے۔

مسٹر ویگنر نے دیکھا کہ اگر لوگوں کو ٹیسٹ کے لیے خود وقت لینے کا کہا جائے یا یہ کہا جائے کہ آپ چاہیں تو ٹیسٹ نہ کروائیں، تو اکثر لوگ ٹیسٹ نہیں کروائیں گے۔ لیکن جب ان لوگوں سے یہ کہا گیا کہ تیسری صورت یہ ہے کہ آپ کو ایک دور دراز کے ہسپتال میں بُک کیا جائے اور اس میں انتظار بھی کرنا پڑے گا، تو زیادہ لوگ ٹیسٹ کروانے پر راضی ہو گئے۔

جیسا کہ ہم نے اوپر دوسری مثالوں میں دیکھا، اس معاملے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ لوگوں نے وہ پیشکش قبول کی جو ایک ڈیکوائے کے طور پر یا دھوکہ دینے کے لیے رکھی گئی تھی، بلکہ اس سے یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے علاقے کے ہسپتال میں جا کر ٹیسٹ کروانا سب سے آسان کام سمجھا۔

اس کے بعد کی تحقیق میں مسٹر ویگنر نے خواتین کو یہ پیشکش کی کہ آیا وہ باؤل کیسنر کا یہ ٹیسٹ کسی خاتون ڈاکٹر سے کروانا چاہیں گی یا مرد ڈاکٹر سے۔ مسٹر ویگنر کہتے ہیں کہ انہوں نے مرد ڈاکٹر والی آپشن محض ایک ڈیکوائے یا دھوکے کے طور پر رکھی کیونکہ وہ جانتے تھے کی زیادہ تر خواتین مرد ڈاکٹروں سے اس قسم کا ٹیسٹ کروانا پسند نہیں کریں گی۔ اس سے ہوا یہ کہ بہت سی ایسی خواتین جو یہ ٹیسٹ نہیں کروانا چاہتی تھیں وہ بھی ٹیسٹ کرانے پر رضامند ہو گئیں۔

مسٹر ویگنر کہتے ہیں کہ یہ مثال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب آپ کوئی ڈیکوائے یا ایسی پیشکش سامنے رکھتے ہیں جو اصل میں کسی کام کی نہیں ہوتی، تو لوگ وہ چیز قبول کر لیتے ہیں جو آپ اصل میں چاہتے ہیں۔

’یہ حمکت عملی دوسری تدبیروں کی نسبت زیادہ کارگر ثابت ہوئی، مثلاً اس سے زیادہ کارگر کہ ہم لوگوں یہ بتاتے کہ بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی یہ ٹیسٹ کرایا ہے اور آپ کو کرانا چاہیے۔‘

اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیکوائے افیکٹ سے شاید جانیں بھی بچائی جا سکتی ہیں، لیکن ہم اس حکمت عملی کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ اپنی دوستوں کے ساتھ کسی سیاحتی سفر پر جانے کا سوچ رہی ہیں اور ابھی تک فیصلہ نہیں کیا کہ کہاں جانا ہے۔

آپ اپنی دوستوں کو اپنے پسندیدہ شہر میں چھٹیاں گزارنے کی دو تجاویز پیش کر سکتی ہیں، لیکن اس میں ایک تجویز ایسی ہونی چاہیے جس میں ہوٹل کے اخراجات تھوڑے زیادہ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی دوستوں کے ذہن میں کوئی اور شہر ہو، لیکن جب وہ آپ کی دونوں تجاویز کا آپس میں موازنہ کریں گی تو عین ممکن ہے وہ آپ کی پسند کے شہر کا انتخاب کر لیں۔

ہاں یاد رکھنے کے بات یہ ہے کہ آپ خود اس قسم کی حکمت عملی یا ڈیکوائے افیکٹ کا شکار نہ ہوں۔

اگر آپ موبائل فون خرید رہے ہیں یا ریٹائر ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں اور سوچ رہے ہیں کون سا ریٹائرمنٹ پلان خریدیں، تو آپ کو چاہیے کہ خود سے یہ سوال کریں کہ آیا واقعی آپ درست سودا کر رہے ہیں اور جو چیز آپ خرید رہے ہیں وہ آپ کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ہے یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دکاندار نے آپ کو کوئی ایسی پیشکش بھی کی ہے جو محض ایک دھوکہ ہے۔

ہو سکتا ہے کہ ایک ایسے ماہر نشانہ باز کی طرح جو غلط اہداف کو خاطر میں نہیں لاتا، آپ کو فوراً احساس ہو جائے کہ آپ کا اصل نشانہ کیا ہے۔

ڈیوڈ روبسن بی بی سی ڈاٹ کام سے منسلک ایک سینیئر صحافی ہیں اور اپنی کتاب ’دی انٹیلیجنٹ ٹریپ‘ میں انہوں نے ایسی غلطیوں کا جائزہ لیا ہے جو ہم سے عموماً سرزد ہو جاتی ہیں۔

Dunya Today

x

Check Also

رینج روور، بینٹلے میں ڈرائیونگ سیکھیں، لگژری ڈرائیونگ سکول کھل گیا

ڈرائیونگ سکول میں جاتے ہی جو کار آپ کو دی جاتی ہے، اس کو دیکھتے ...

%d bloggers like this: