حسینی ہیبرے افریقی ڈکٹیٹر ہے جس نے 1982ء میں براعظم افریقہ کے ملک چاڈ کے اقتدار پر ناجائز قبضہ کیا اور پھر 8 سال تک دہشت کی علامت بنا رہا۔
اس کے دورِ اقتدار میں حکومت پر تنقید کرنے والوں کیلئے ٹارچر سیل بنائے گئے۔ اختلافِ رائے کا اظہار کرنے والوں کو مقدمہ درج کیے بغیر اُٹھا لیا جاتا اور پھر ان غیر قانونی حراستی مراکز میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔
اس نے اپنے شہریوں کی جاسوسی کیلئے ایک خفیہ ادارہ تشکیل دیا۔ جب لوگ ان مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور 1990ء میں حسینی ہیبرے کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو وہ 11ملین ڈالر کی رقم لے کر سینیگال فرار ہو گیا۔
عوام کی طرف سے مطالبہ کیا جا تا رہا کہ انسانی حقوق پامال کرنے والے اس ڈکٹیٹر کیخلاف مقدمہ درج کرکے کارروائی کی جائے۔ چاڈ کی عدالتوں میں حسینی ہیبرے کے خلاف ٹرائل کا آغاز ہوا تو اس نے پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ حسینی ہیبرے کو مفرور اور اشتہاری قرار دے دیا گیا۔
بار بار مہلت دیے جانے کے باوجود حسینی ہی برے عدالت کے سامنے پیش نہ ہوا تو چاڈ کی عدالت نے اس کی غیر موجودگی میں سزائے موت سنا دی۔ یہ محض علامتی سزا تھی کیونکہ حسینی ہیبرے واپس آتا تو ہی اس کی سزا پر عملدرآمد ہو سکتا تھا، اس لئے سیاسی کارکنوں نے عالمی سطح پر اس کے خلاف مہم شروع کر دی۔
ایک بار بلجیم کی عدالت نے اس کی گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری کیے تو افریقی ممالک پر کارروائی کرنے کیلئے دبائو بڑھ گیا۔ افریقی ممالک کی یونین نے ڈکٹیٹر حسینی ہیبرے کا ٹرائل کرنے کیلئے سینیگال میں ایک خصوصی عدالت قائم کر دی اور اس کیخلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
اس خصوصی عدالت نے مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے پر 2016ء میں حسینی ہیبرے کو عمر قید کی سزا سنا دی۔
دنیا بھر کے مہذب ممالک میں عوام کی امانت سمجھے جانے والی حاکمیت پر ڈاکا ڈالنے کو ناقابل معافی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ چند برس قبل مالی کے ڈکٹیٹر جنرل موسیٰ تروڑا کو منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے پر گرفتار کرکے محض 12ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرکے سزائے موت سنائی گئی مگر وہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ عجلت میں فیصلہ کیوں کیا گیا اور عدالت کو فیصلہ سنانے کی جلدی کیوں تھی۔
پہلی بار جنرل موسیٰ کو اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی مگر حکومت نے یہ سزا معاف کر دی۔ ایک بار پھر ٹرائل ہوا تو جنرل موسیٰ کو بیوی سمیت پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا گیا مگر چند برس قید رہنے کے بعد یہ سزا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی اور پھر حکومت نے انسانی ہمدردی اور سیاسی مصالحت کی بنا پر یہ سزا معاف کرکے جنرل موسیٰ تروڑا کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
یونان میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پاپڈوپولس کو اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔ کچھ عرصہ بعد سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا مگر یہ سزا معاف نہیں ہوئی اور عوام کے حق حاکمیت پر ڈاکا ڈالنے والا ڈکٹیٹر موت تک جیل میں اپنے کیے کی سزا کاٹتا رہا۔
انقلاب ایران کے بعد رضا شاہ پہلوی فرار ہو گیا مگر دیارِ غیر میں جلاوطنی کی زندگی گزاری کیونکہ واپس آتا تو اس کا ٹرائل کیا جاتا۔ روسیوں نے زار نکولس دوئم کو پھانسی دیدی۔ فرانسیسیوں نے شاہ لوئی ششم کو گلوٹین کے ذریعے مار ڈالا۔
رومانیہ کے لوگوں نے ڈکٹیٹر نکولی چائو شسکو کو مختصر ٹرائل کے بعد فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولی مار دی۔ برطانیہ میں جنرل کرامویل کی ہڈیاں قبر سے نکال کر اس کا ٹرائل کیا گیا اور اس کی کھوپڑی کو علامتی طور پر پارلیمنٹ کے سامنے لٹکا دیا گیا۔
پاکستان میں آئین کو عضو معطل بنانے والے ڈکٹیٹروں کے ٹرائل کی روایت نہیں تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اقتدار سے سبکدوش ہونے کے بعد باعزت زندگی گزارتے رہے۔
جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں ملک ٹوٹ گیا اور ملک توڑنے والوں کا ٹرائل نہیں ہوا تو آئین توڑنے والوں کو سزا کیسے دی جاتی۔ جنرل یحییٰ خان کو قومی پرچم میں لپیٹ کر سرکاری اعزاز کیساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
اسی طرح جنرل ضیاء الحق طیارہ تباہ ہو جانے پر لقمہ اجل بنے تو انہیں چاق و چوبند دستے نے سلامی دیکر لحد میں اتارا۔ جنرل پرویز مشرف کو بھی ایوانِ صدر سے گارڈ آف آنر دیکر رخصت کیا گیا تو توقع یہی تھی کہ ان کے ٹرائل کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔
17دسمبر 2013ء کو آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی شروع کرنے کیلئے سیکرٹری قانون کی طرف سے درخواست دی گئی تو سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت تشکیل دی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ 3نومبر کے اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ دے چکی تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے آئین کو معطل کرکے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کی اس لئے خصوصی عدالت کیلئے فیصلہ کرنا بہت آسان تھا مگر قانونی مراحل طے کرتے ہوئے 6سال کا عرصہ بیت گیا۔
اس دوران کئی جج صاحبان ریٹائر ہوگئے، سپریم کورٹ نے ملزم پرویز مشرف کو تین آپشن دیے کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کروائیں، آن لائن بیان دیدیں یا پھر اپنے کسی وکیل کو پاور آف اٹارنی دیدیں ،پرویز مشرف نے عدالت کے سامنے حاضر ہونے کا آپشن قبول کرلیا مگر وہ نہ آئے۔
سپریم کورٹ نے آخری موقع دیتے وقت واضح کر دیا تھا کہ وہ اس بار پیش نہ ہوئے تو اپنا حق دفاع کھو دیں گے۔ یہ مئی کی بات ہے اسکے بعد بھی کم و بیش پانچ ماہ عدالت نے توقف کیا اور انہیں حاضر ہونے کا موقع دیا گیا مگر وہ نہیں آئے تو ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنا دیا گیا۔
پرویز مشرف کو سزائے موت ایک علامتی فیصلہ ہے جس پر عملدرآمد کا کوئی امکان نہیں کیونکہ پرویز مشرف پاکستان آئیں گے ہی نہیں تو اس سزا پر عملدرآمد کیسے ہوگا۔
صدرِ مملکت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس سزا میں تخفیف کر سکتے ہیں یا معافی بھی دی جا سکتی ہے لیکن اس فیصلے پر تنقید ناقابل فہم ہے۔
افواجِ پاکستان سے بے پناہ پیار کرنے والے عوام ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ سیاست میں مداخلت چند افراد کا انفرادی فعل ہے اس پر پورے ادارے کو موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے۔
اگر ان افراد کو سزا دینے پر غم و غصے کا اظہار ہوگا تو پھر اس دیرینہ موقف کو ضعف پہنچے گا اور فاصلے بڑھیں گے