اسرائیلی فوج نے اسلامی جہاد کو نشانہ بنانے والے حملوں میں شہریوں کی غیر متوقع ہلاکتوں کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے ا ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے تازہ حملوں کے نتیجے میں 34 فلسطینی شہید ہوگئے تھے جس کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا تھا جو عموماً کمزور ہوتا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق باضابطہ معاہدہ ہونے کے بعد یہودی ریاست کے ساحلی علاقے میں بھی راکٹ داغے گئے۔
اسرائیل نے اسلامی جہاد کے خلاف جوابی حملے کیے تھے جو غزہ کی محصور پٹی پر حکمرانی کرنے والی جماعت حماس کے بعد دوسرا بڑا عسکری گرہ ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جانب سے ڈیرہ البلاہ میں کیے گئے فضائی حملے میں ابو ملحوس ان کی 2 بیویاں اور 5 بچے ہلاک ہوئے تھے۔
جمعرات کو شروع ہونے والی جنگ بندی سے کچھ گھنٹوں قبل اسرائیل نے رسمی ابو ملحوس کے گھر کو نشانہ بنایا جنہیں اسلامی جہاد کا کمانڈر قرار دیا گیا۔
دوسری جانب اسلامی جہاد کا کہنا تھا کہ ابو ملحوس اسلامی جہاد سے منسلک شخص کے طور پر معروف تھے لیکن وہ تنظیم کے کمانڈر نہیں تھے۔
اس حوالے سے اسرائیلی فوج کے ترجمان جوناتھن کنریکس نے دعویٰ کیا کہ دیگر افراد کی طرح حملے کا نشانہ بننے والے ہدف نے بھی اپنی رہائش گاہ میں اسلحہ اور فوجی سامان چھپانے کا حربہ استعمال کررکھا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ آرمی حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتوں سے آگاہ ہے لیکن اس کی توقع نہیں کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کو دستیاب معلومات کے مطابق حملے کے وقت کسی شہری کو نقصان پہنچنے کی توقع نہیں تھی۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ آئی ڈی ایف حملے سے شہریوں کو نقصان پہنچنے کی تحقیقات کررہی ہے۔
اس واقعے کے بارے میں ابو ملحوس کے رشتہ دار نے بتایا کہ ’حملے میں بچ جانے والے افراد اور بچوں کو مقام ہسپتال پہنچایا گیا ’وہ معصوم ہیں جن کے پاس اب صرف تلخ یادیں ہوں گی اور انہیں اس سب سے نکلنے میں وقت لگے گا‘۔
یاد رہے کہ لڑائی کا حالیہ دور اس وقت شروع ہو جب اسرائیل نے فضائی حملے میں اسلامی جہاد کے اہم کمانڈر بہا العطا اور ان کی اہلیہ کو شہید کردیا جس کے ردِ عمل میں اسرائیل میں بھی راکٹ برسائے گئے۔
اس ضمن میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہودی ریاست کے خلاف کئی کارروائیوں کے پیچھے مذکورہ کمانڈر کا دماغ تھا، خیال رہے کہ حماس کے مقابلے میں چوٹی ہونے کے باجود اسلامی جہاد کو زیادہ شدت پسند تصور کیا جاتا ہے۔
کمانڈر کی ہلاکت کے بعد اسلامی جہاد نے اسرائیل میں 450 سے زائد راکٹ برسائے جس سے کچھ زخمی اور املاک کو نقصان پہنچا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس میں سے ایک راکٹ ایک مصروف شاہراہ پر تیزرفتار کار کو نشانہ بناتے بناتے بچا۔