جعلی اکاؤنٹس کیس میں تمام ملزمان کو ریفرنس کی کاپیاں فراہم نہ کیے جانے کے باعث احتساب عدالت نےسماعت ملتوی کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے ریمانڈ میں 22 اکتوبر توسیع کردی۔
احتساب عدالت نے جج محمد بشیر نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے تمام ملزمان کو ریفرنس کی کاپیاں موصول ہونے کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
ساتھ ہی احتساب عدالت کے جج نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے جوڈیشل ریمانڈ میں 22 اکتوبر میں توسیع کردی۔
سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کو بتایا کہ نیب نے یونس قدوائی اور اعظم وزیر کے ریڈ وارنٹ کے اجرا کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دی ہے، دونوں ملزمان اس وقت بیرون ملک مقیم ہیں۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ضمنی ریفرنس آئندہ سماعت تک دائر کردیں گے، انہوں نے مزید کہا ضمنی ریفرنس پر چیئرمین نیب کی منظوری ہونا باقی ہے۔
بعدازاں عدالت نے ریفرنس کی کاپیاں ملزمان کو موصول نہ ہونے کے باعث سماعت 22 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
جعلی اکاؤنٹس کیس
خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
خیال رہے کہ ان سے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کے حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں، جس کی لاگت ابتدائی طور پر 35 ارب روہے بتائی گئی تھی۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔
تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔
بعدازاں نیب نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سیکریٹری آفتاب میمن، شبیر بمباٹ، حسن میمن اور جبار میمن کو گرفتار کر کے 14 روزہ ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا، ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ان ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری و دیگر پیش ہوئے تھے۔
15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔
جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد آٹھوں ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکاؤنٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔
مذکورہ کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت قبل از گرفتاری میں مسلسل توسیع ہوتی رہی تاہم آصف زرداری کو 10 جون جبکہ ان کی بہن کو 14 جون کو گرفتار کرلیا تھا جنہین بالترتیب 15 اگست اور 12 اگست کو ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔