پانچ سال مکمل کرنے کا سبق

اکہتر سالوں میں اٹھارہ منتخب وزرائے اعظم کے نامکمل ادوار اور سات نگران وزرائے اعظم کے نمائشی عہدے ایک طرف رکھ دیں اور خود سے سوچیں کیا کوئی وزیراعظم اقتدار میں آکر یہ چاہے گا کہ اسے تاریخ میں برے نام سے یاد رکھا جائے یا اسکی کارکردگی صفررہے؟ ہرگز نہیں۔

ہر دور میں نئے وزرائے اعظم عوام کے لیے نئی امیدیں لے لائے۔ مگر کسی ایک کوبھی مدت پوری کرنے دی گئی نہ عزت سے گھر جانے دیا گیا ۔ ایک نہیں تو دوسری وجہ ہر کسی کے آڑے آئی۔ چلیں انیس سو سینتالیس کو چھوڑیں گزشتہ سترہ سال کے چار منتخب وزرائےاعظم کی مختصر کہانیاں دیکھ لیں۔

سال دوہزار سات میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بننے آئی تھیں، قتل نے قبر میں پہنچا دیا۔ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کو منکسر المزاج یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنانا پڑا۔ گیلانی نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تو پارلیمنٹ اور کابینہ دونوں کو عزت دی اور اپوزیشن کو ساتھ ملایا۔ جب عدلیہ سے اختلاف ہوا تو سرجھکائے عدلیہ کے پاس بھی پہنچ گئے۔

مگر جب ایوان کے اندر میمو گیٹ کے تناظر میں ایبٹ آباد آپریشن پر آنکھیں دکھائیں اور اس وقت کے سیکرٹری دفاع (آجکل نگران وزیردفاع خالد شمیم لودھی) کو غصے میں برطرف کردیا گیا تو بعد میں عدالتی حکم پرخود بھی گھر جانا پڑا۔ ان کے خلاف شکایتیں بہت تھیں مگر انہوں نے پارٹی کے سربراہ اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے سامنے سرجھکایا اور عدالت کے ہاتھوں سزا پاکر پارٹی وفاداری میں وزارت عظمیٰ قربان کردی۔

ان کی یہی سزا کافی نہیں تھی۔ انکا بیٹا بھی اغوا ہوگیا اور انہیں آنسوئوں کے ساتھ انہی آہنی دروازوں پر دستک دینا پڑی جنہیں کبھی انہوں نے پارلیمنٹ میں للکارا تھا۔ لیڈر جتنا بھی بڑا ہو ، باپ بن کر سوچے تو خیالات ساتھ دیتے ہیں نہ جذبات قابو میں آتے ہیں۔ بیٹا تو خیر واپس آگیا لیکن آج بھی گیلانی کے گھر سے خوف کی فضا ختم نہ ہوسکی۔ سابق وزیراعظم کو آج بھی گھر سے خاندان سمیت بیرون ملک منتقلی کے دبائو کا سامنا ہے۔ دبائو ڈالنے والی اہلیہ ، اہلیہ کم اور بچوں کی ماں زیادہ ہے ۔ گیلانی سال دوہزار تیرہ کے انتخابات میں نااہلی کے باعث توشرکت نہ کرسکے ۔ اس بار گھریلو دبائو کو بالائے طاق رکھ کر تینوں بیٹوں کے ہمراہ انتخابی میدان میں اترے۔ یاوری صرف ایک بیٹے کوہی ملی ۔ گیلانی ایوان سے باہر ہی صحیح مگر وہ پارٹی ، سیاست اورملک ہر جگہ سرخرو ہیں ۔ گھریلو جذباتی جنگ ،البتہ جاری ہے۔

گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف نے وزارت عظمیٰ سنبھالی تو کوئی خاص فیصلہ نہ کرپائے نہ ہی بطور وزیراعظم کوئی ایسا تاثر چھوڑ پائے کہ دنیا انہیں یاد کرتی۔ شاید ان کے پاس وقت بھی کم تھا اور صدارت کی کرسی پر بھاری بھرکم آصف علی زرداری بھی فائز تھے جن کے معاونین ان کےد ور میں وزیراعظم کے اختیارات استعمال کرتے تھے۔ راجہ پرویز اشرف نے خاموشی سے نوکری کی اور گھر کو چلے۔ سال دوہزار تیرہ کے انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اس بار قسمت نے ساتھ دیا ہے اور وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں اپنی جماعت سےوفاداری کے تمغے کے ساتھ موجود ہیں۔

عام انتخابات کے بعد نوازشریف وزارت عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ تو اس نظرئیے کے ساتھ کہ اب تیسری بار وہ تمام مسائل حل کر پائیں گے ۔ مگرپاناما کیس میں عدالتی حکم پر انہیں بھی گھر جانا پڑا۔

پہلے دھرنا اور ڈان لیکس کے ذریعے حکومت کو زخمی کیا گیا اور پھر پانامہ لیکس کاایسا وار ہوا کہ نوازشریف اقتدار سے نکلے تو سیدھے جیل میں۔ اکیلے بھی نہیں بیٹی اور داماد کے ساتھ۔ نوازشریف کا اقتدار کسی پل صراط سے کم نہیں رہا۔ ایسا نہیں کہ نوازشریف نے کوئی غلطیاں نہیں کیں۔ غلطیاں انہوں نے بھی بہت کیں چونکہ آج وہ جیل میں ہیں اور ہر لکھاری نئے حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے نوازشریف کے اقتدار کی غلطیاں نکال رہا ہے ۔ اس لیے فی الحال ان کی غلطیوں کا ذکر ان کے جیل سے باہر آجانے تک الگ کالم کی صورت موقوف کرتا ہوں۔ غلطیاں ایک طرف نوازشریف کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ طاقتور حلقوںکے خلاف کھل کر سامنے آگئے ہیں اورتاحال لرزش دکھانے سے گریزاں بھی۔

نوازشریف کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا ۔ مری کے عباسی نے اپنے لیڈر نواز شریف سے بھی وفاداری نبھائی اور طاقت کے ایوانوں کو بھی ایک بیلنس کے ساتھ آگے لےجانے کی کوشش کی۔ قائد اور طاقتوروں میں لڑائی اتنی زیادہ تھی کہ وزیراعظم کو دونوں میں سے ایک کا چنائو کرنا ہی تھا۔ انگریزی اخبار کو دئیے انٹرویو میں وزیراعظم نے ایک اجلاس تو کیا مگر پریس کانفرنس میںساتھ اپنے قائد کا دیا۔ پارٹی کی نظر میں تو سرخرو ہو گئے مگر عام انتخابات میں شکست کا پروانہ بھی جاری ہوگیا۔ مختصر دورانیے میں عباسی نے کابینہ کے اجلاس تواتر سے منعقد کیے ۔ دفتری فائلیں بروقت نکالیں لیکن وقت کی کمی اور ملک میں جاری سیاسی طوفان کے باعث بطوروزیراعظم ان کی کارکردگی نکھر کرسامنے نہ آسکی۔

اوپر درج تمام وزرائےاعظم کی کہانیاں کسی تجربے سے کم نہیں۔ کہتے ہیں عقلمند تجربے سے نہیں دوسروں کے تجربے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

نئے انتخابات کے بعد نئی صف بندی ہوچکی اور عمران خان نئے وزیراعظم کے طور پر سامنے آ گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ عوامی امنگوں پر پورا اتر سکیں گے ؟ یا ان کا حال بھی ایسا ہی ہوگا جیسا اٹھارہ سابق وزراعظم کا ہوا۔

عمران خان نے کرکٹ کے میدان اور یورپ سے جو شہرت کمائی تھی گزشتہ دو دہائیوں میں اس نے اپنے پرانے تاثر کو زائل کیا اور نیا انداز اپنایا۔ جدید مغربی رنگ سے نکل کر ایک ایسے مذہبی شخص کے طور پر ابھرے جو طاقت کے ان تمام رستوں پر چلا ہے جو اسکے حصول کے لیے درست ، غلط کی تمیز نہیں رکھتے۔ ماضی کے وزرا ئےاعظم بھی ایسا ہی کرتے رہے۔

عمران نے وزارت عظمیٰ کا حصول ایک چیلنج کے طور پر لیا اور چیلنج جیت چکے لیکن اس نشست پر پانچ سال ایسے پورے کرنا کہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے ہوں ، پڑوسیوں سےتعلقات اچھے رہیں ، عالمی برادری مطمئن ہو ، معیشت کا پہیہ تیز چلے اور سب سے بڑھ کر ملک کے اندر طاقتور طبقے ناراض بھی نہ ہوں۔ یہ سب باتیں بظاہر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر آپ ایک کو خوش کریں تو دوسرا ناراض۔ نتیجہ ٹکرائو اور اقتدار سے رخصتی۔

میری ناقص رائے میں اگر فوری توجہ عوامی اہمیت کے اداروں جیسے پولیس ، محکمہ مال ، ضلعی حکومتوں کو موثر بنانے جیسے امور کی بہتری پر صرف کرکے عوامی حمایت حاصل کی جائے اور اس پر اہداف کے حصول کے بعد ہی بین الاقوامی امور پر غیر جانبدار فیصلے کیے جائیں توہی جمہوریت کی گاڑی آگے بڑھے گی ۔ تنازع یہ نہیں کہ کیا کرنا ہے سوال یہ ہے کہ کیا ، کب کرنا ہے ؟

آج ملک میں کوئی بھی ایک شخص ایسا نہیں جو دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکے کہ عمران خان وزارت عظمیٰ کے عہدے پر پانچ سال پورے کرسکیں گے۔ مجھ سمیت ہر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران کی لڑائی ضرور ہوگی۔ دعا کریں میں غلط ثابت ہوں اور عمران بطور موثر وزیراعظم پانچ سال پورے کریں ۔ اگر ایسا ہوگیا تو یقین کیجیے مجھے غلط ثابت ہونے پر بہت خوشی ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: