کیا ملزم کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا جا سکتا ہے؟

اسلام آباد کی نیب عدالت کے جج محمد بشیر کو اگلے چوبیس گھنٹوں میں ایک نہیں دو فیصلے کرنے ہیں۔ جج محمد بشیر کو میاں نواز شریف کی اس درخواست پر فیصلہ پہلے کرنا ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ شریف خاندان کی لندن میں جائیدادوں کے حوالے سے مقدمے کا فیصلہ اس وقت تک موخر کیا جائے جب تک لندن میں زیر علاج بیگم کلثوم نواز کی صحت سنبھل نہیں جاتی۔

دوسرا فیصلہ جج محمد بشیر کو یہ کرنا ہے کہ انھیں اپنی اعلان کردہ تاریخ پر شریف خاندان کے بارے میں مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے یا نہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف لندن میں جائیدادوں کے حوالے سے مقدمے کی سماعت گذشتہ آٹھ ماہ سے جاری ہے۔

میاں نواز شریف جو اپنی بیگم کلثوم نواز کی علالت کی وجہ سے لندن میں موجود ہیں انھوں نے نیب عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس فیصلے کا اعلان ‘چند روز’ تک مؤخر کر دیں کیونکہ وہ فیصلہ عدالت میں کھڑے ہو کر سننا چاہتے ہیں۔ البتہ میاں نواز شریف نے ‘چند روز’ کی تعریف نہیں کی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اشارہ دیا ہے کہ وہ کب تک واپس پاکستان جانا چاہتے ہیں۔

ماہرین قانون اس سوال پر بحث کر رہے ہیں کہ کیا کوئی ملزم عدالت سے ایسی درخواست کر سکتا ہے کہ عدالت اس کے مقدمے کا فیصلہ اس کی مرضی کی تاریخ پر سنائے۔

ماہرین قانون کی اکثریت اس موقف کی حامی ہے کہ قانون کسی ملزم کو یہ حق نہیں دیتا کہ عدالت اس کی مرضی کی تاریخ پر فیصلہ سنائے۔ ان ماہرین قانون کا موقف ہے کہ کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی سیکشن 366 واضح طور پر کہتی ہے کہ عدالت فیصلے کی تاریخ کا اعلان کرے اور اس کا نوٹس ملزم کو دیا جانا لازمی ہے۔

ان ماہرین کے خیال میں قانون کسی شخص کی غیر موجودگی میں مقدمے کی کارروائی چلانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن جب ملزم نے مقدمے کی کارروائی میں شرکت کی اور اس نے اصالتاً یا وکالتاً عدالتی کے سامنے حاضری دی ہے، عدالت کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی اعلان شدہ تاریخ پر فیصلہ نہ سنائے۔

البتہ کچھ ماہرین قانون ایک ایسے عدالتی فیصلے کا ذکر کر رہے ہیں جس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ فیصلہ سناتے وقت ملزم کی عدالت میں موجودگی لازم ہے۔ ایسے سپریم کورٹ کے ایک مقدمے لیاقت علی کا حوالہ دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔

البتہ ماہرین قانون ایک نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ عدالتیں ہمیشہ ہمدردی کے جذبے کو ملحوظ خاطر رکھتی ہیں اور اگر ملزم ایسی ٹھوس وجہ بیان کر سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ عدالت میں پیش ہونا ملزم کے اختیار میں نہیں ہے تو ایسے میں عدالتیں اپنی صوابدید پر درخواست پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: