بڑھتی عمر بھوک پر کیا اثر ڈالتی ہے؟

خوراک کی ضرورت ہم سب کو روزانہ ہوتی ہے لیکن عمر کے ساتھ ساتھ ہمارا کھانے سے تعلق تبدیل ہوتا ہے اور اس سے ہماری صحت پر گہر اثر پڑتا ہے۔

کیا آپ کھانے کے لیے جیتے ہیں یا جینے کے لیے کھانا کھاتے ہیں؟ ہمارا اپنی غذا کے ساتھ کافی پیچیدہ رشتہ ہے اور اس کا انحصار کھانے کی قیمت، دستیابی، اور ہمارے ساتھیوں کی پسند ناپسند پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ بلاتفریق ہم سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے کھانا کھانے کی خواہش۔

جب ہم بھوکے ہوتے ہیں تو اس وقت تو ہم کھانا کھانے کی خواہشمند ہوتے ہی ہیں۔ لیکن اکثر اوقات ہم لوگ اس وقت بھی خوراک نوش کرتے ہیں جب ہم بھوکے نہیں ہوتے اور کبھی ہم شدید بھوک لگنے کے باوجود بھی کھانا نہیں کھاتے۔

حالیہ تحقیق کے مطابق ہمارے اطراف کا ماحول ہمیں کھانا کھانے پر مجبور کرتا ہے اور ایسے اشارے دیتا ہے جس سے ہم خواہش سے زیادہ خوراک کھاتے ہیں۔

انسانوں کے زندگی میں خوراک سے تعلق عمر کے مختلف حصوں میں تبدیل ہوتا ہے اور اس رشتے کو سمجھنے کے لیے اس کو سات حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلی دہائی – پیدائش سے لے کر دس برس تک کی عمر

بچپن میں انسانی جسم تیزی سے تبدیل ہوتا ہے اور اس وقت وضح کیا گیا کھانا کھانے کا رویہ مستقبل میں بھی اثر انداز ہوتا ہے جیسے اگر کوئی بچہ چھوٹی عمر میں فربہ جسم ہو تو بڑا ہو کر بھی وہ ویسا ہی رہے گا۔

کئی مواقعوں پر بچوں کا کھانے سے متعلق نخرے کرنے پر والدین کو دشواریاں ہوتی ہیں لیکن غذا کے بارے میں مثبت رویہ رکھنے سے اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب بچے بھی کھانے کے بارے میں اپنی خواہشات کا اظہار کر سکتے ہیں، جیسے وہ کھانا کتنا کھانا چاہتے ہیں۔

عام طور پر والدین بچوں کو مجبور کرتے ہیں کہ پلیٹ میں دیا ہوا تمام کھانا ختم کیا جانا چاہیے لیکن اس سے بچے اپنی خواہش کا اظہار نہیں کر پاتے اور اس رویے کی وجہ سے مستقبل میں بھی وہ خواہش سے زیادہ کھانا نوش کرتے ہیں جس سے آگے جا کر ان کے موٹے ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ حکومتوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ بچوں کو جنک فوڈ کے اشتہارات سے بچایا جائے جس سے ان کی کھانا کھانے کی خواہش زیادہ بڑھتی ہے اور وہ ان میں وزن بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔

دوسری دہائی – دس برس سے لے کر بیس برس تک کی عمر

بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک بچوں کی بھوک بڑھ رہی ہوتی ہے اور عمر کے اس حصے میں کم عمر نوجوانوں کا خوراک کے بارے میں رویہ ان کے مستقبل کے طرز زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔

کم عمر خواتین میں غذائیت کی کمی زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ آگے جا کر یہ ان کے تولیدی عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

عمر

تیسری دہائی – 20 سے 30 برس تک کی عمر

عمر کے اس حصے میں ہونے والی تبدیلیاں جیسے کالج جانا، شادی کر لینا اور والدین بن جانے کے سبب وزن بڑھنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔

اور ایک دفعہ جب جسم پر چربی چڑھ جائے تو اسے کم کرنا کافی دشوار ہوتا ہے۔ کم خوراک کھانے کے نتیجے میں جسم سے ایسے اشارے ملتے ہیں جو زیادہ کھانا کھانے پر مائل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسی ذہنی اور دیگر وجوہات ہوتی ہیں جس سے متناسب خوراک نوشی کی عادت رکھننا مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔

اس حوالے سے ایک نئے شعبے پر تحقیق کی جا رہی ہے جس کا مقصد ہے کہ انسانی جسم کے لیے ایسا نظام مرتب کیا جائے جس سے کم کھانے کے باوجود شکم سیری کا احساس رہے۔ یہ ان افراد کے لیے بالخصوص فائدہ مند ہو سکتا ہے جو وزن کم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

چوتھی دہائی – 30 سے 40 برس تک کی عمر

عمر کے اس حصے میں خوراک ہی صرف ایک مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے دوسرے مسائل بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں جو بھوک کو متاثر کرتے ہیں۔ ان میں سے چند لوگ زیادہ کھانا کھانے پر مائل ہوتے ہیں جبکہ اور لوگ کھانے سے دور ہو جاتے ہیں۔

عمر کے اس حصے میں خوراک نوش کرنے کے رویے کو درست کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ اکثر لوگ نوکریاں کر رہے ہوتے ہیں اور اُس ماحول میں کچھ نہ کچھ کھایا جا رہا ہوتا ہے۔ اداروں کو چاہیے کہ اپنے ملازمین میں کھانے سے متعلق اچھی عادتوں کی ترغیب دیں اور ساتھ ساتھ سٹریس سے نپٹنے میں مدد دیں۔

عمر

پانچویں دہائی – 40 سے 50 برس تک کی عمر

اس بات کے واضح شواہد ہیں کہ صحت کی خرابی میں ایک بڑا ہاتھ خراب خوراک نوشی اور اس سے متعلقہ عادات کا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سگریٹ نوشی، غیر صحت بخش خوراک، سست طرز زندگی اور شراب نوشی صحت پر بہت مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو 40 سے 50 کی عمر میں کھانے کا عادتوں کا تبدیل کیے جانا بہت ضروری ہے کیونکہ صحت کی خرابی کی نشاندہی کرنے والے عوامل جیسے بڑھتا ہوا فشار خون یا کولیسٹرول نظر نہیں آتے۔

چھٹی دہائی – 50 سے 60 برس تک کی عمر

عمر کے اس حصے تک پہنچ کر پٹھے کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر غذا پر توجہ دی جائے تو اس سے بچا جا سکتا ہے جیسے پروٹین سے بھرپور غذا پر زور دینے سے پٹھوں کی صحت اچھی رہتی ہے۔

اگر اچھی خوراک اور صحت بخش طرز زندگی کو اپنایا جائے اور ورزش کو جاری رکھا جائے تو بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

ساتویں دہائی – 60 سے 70 برس تک کی عمر

عمر

اوسط عمر بڑھنے سے جو دوسرا چیلینج درپیش آیا ہے وہ ہے کہ اچھی زندگی کیسے گزاری جائے ورنہ خدشہ ہے کہ ہمارا معاشرہ عمر رسیدہ افراد سے بھرا ہوا ہوگا جو لاغر اور نخیف ہوں گے اور اپنا خیال رکھنے سے قاصر ہوں گے۔

بڑی عمر کے افراد کے لیے اچھی خوراک حاصل کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ ان کا وزن خطرناک حد تک کم ہو سکتا ہے اور اس کی وجہ سے مختلف بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری زندگی میں کھانے کی کتنی اہمیت ہے اور یہ ہمیں صرف غذائیت نہیں دیتا بلکہ ہمارے سماجی اور معاشرتی عادات کا اہم جزو ہے۔

ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کھانا مزے لے کر کھایا جائے اور صحت بخش خوراک ہماری صحت پر مثبت اثرات ڈالے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: