وفادار غدار کیو ں بنتے ہیں

انتخابات دو ہزار اٹھارہ کل کے دوست آج کے دشمن بنے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور کل کے دشمن آج باہم شیر و شکر ہو کرایک دوسرے کی بلائیں لے رہے ہیں۔ انقلابی لوٹے کہلائے جا رہے ہیں اور لوٹے جمہوری گاڑی کے ڈرائیور بن کے سامنے آ رہے ہیں۔ انتخابات میں ایک نیا منظر نامہ بھی اُبھر کے آ رہا ہے۔ جو کل تک وفادار کہلائے جاتے تھےاوران کی وفاداری پر کسی قسم کا کوئی سوال نہیں اُٹھتا تھا،اُن کی اختلافی سوچ نےاُن کوغداری کے تمغے بٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ غداری پارٹی سے، غداری سیاسی قائد سے، غداری پارٹی پالیسی سے۔ حالانکہ لکھتے آئے، سنتے آئے، دیکھتے آئے کہ اختلاف جمہوریت کا حُسن اور اُس کی مضبوطی کی علامت رہا ہے لیکن جدیدت کے اس دور میں اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔

نثار، زعیم قادری، اور اب چوہدری عبدالغفور،اس کے علاوہ مقامی سطح کی قیادت کی ایک بڑی تعداد جو وفاداری سے غداری کا تمغہ پا چکی ہے۔ پیمانہ کیا ہے وفادری کا ؟ پیمانہ کیا ہے غداری کا؟ کون وفادار کہلاتا ہے؟ اور کون غدار کہلاتا ہے؟ جب تک چوہدری نثار پارٹی میں بولتا تھا، لیکن اتنا نہیں بولتا تھا تو وہ سخت گیر ، اصول پسند کہلاتا تھا۔ آج اگر وہ پارٹی پالیسی پرکھل کے تنقید کر رہا ہے اور پارٹی میں شہنشائیت کے خلاف ہو چکا ہے تو وہ غدار ہو گیا؟ جھکے سر اورجائز و ناجائز کو تسلیم کرنا کیا وفاداری ہے؟ غلط پالیسی پرآواز بلند کرنا ، پارٹی کے اندر کے معاملات کے بگڑنے پراصلاح کی کوشش کرنا،کیایہ غداری ہے؟ پینتیس سالہ رفاقت کواگرگردنوں کا سریا بچا نہ سکے تو بے چارہ ووٹر پھر کیا اُمید رکھے؟ اور جمہوریت کی مضبوطی کا خواب کیسے تعبیر پائے گا جب پارٹیاں اپنے اندر جمہوریت کو رائج نہیں کر سکتیں؟ اگر زعیم قادری جیسا شخص جو ایسے انداز میں پارٹی کا دفاع کرتا رہا ہو کہ سننے والے اس کے لہجے اور الفاظ سے ہی اس کی پارٹی پرتنقید سے توبہ کرتے ہوں تو پھر کسی اور کو کیا توقع رکھنی چاہیے۔ وجہ صرف این اے133 تو ہو نہیں سکتی۔ کیوں کہ اگر ایک حلقے کی بات ہوتی تو ٹکٹ نہ بھی دینا مقصود ہوتا تو کیا پارٹی ترجمان کا کردار ادا کرنے والے شخص کو قائل کرنا ناممکن تھا؟ کیا قیادت اس حد تک فرعونیت کا شکار ہو چکی ہے کہ پارٹی کے لیے گالیاں کھانےوالےبھی بندر بانٹ کی وجہ سے کھڈے لائن لگتے نظر آ رہے ہیں؟ چوہدری عبد الغفور جس سخت لہجے میں عوام سے مخاطب ہوئے کیا یہ لہجہ ایک دن میں بنا؟ زیادتیوں کو سلسلہ ایسا دراز تو نہیں ہوتا رہا کہ دیرینہ کارکنان بھی مایوس ہونا شروع ہو گئے؟ پارٹی قائد کی سختی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے دیرنہ ساتھیوں کی بات تک سننے کے روادار نہیں، لمحہ فکریہ ہے۔ وجہ تو شاید سامنے ہے کہ پارٹی قائدین یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کے ہر درست اور غلط کام کا نہ صرف ان کے ساتھی دفاع کریں بلکہ وہ اس پہ بے تکی توجیحات بھی پیش کریں۔ قائد سیاہ کرئے یا سفید اس پہ بلا چوں چراں نہ صرف امین کہیں بلکہ بھونڈے دلائل دے کر قیادت کا ہر غلط فیصلہ بھی درست ثابت کریں۔ یہی جمہوریت ہے؟ یہی جمہوریت کا حسن ہے؟ یہی جمہوریت کی مضبوطی کی علامت ہے؟

تحریک انصاف میں قریشی و ترین کی باہمی لڑائی ہو یا پیپلز پاڑتی کے اڑتے پنچھیوں کا قصہ، نواز لیگ کے دینہ ساتھیوں کا چھوڑ کے جانا ہو یا پھر ٹکٹ سے انکاری اُمیدواران، کسی بھی صورت میں وفاداری و غداری کے سرٹیفیکیٹ کو سیاسی کارکنوں کی آنکھیں بند کر کے کی گئی تقلید سے منسلک کرنا جمہوریت کی کسی تعریف میں بھی نہیں آتا۔ جمہوریت کا تو حُسن ہی یہی ہے کہ پارٹی کے اندر اختلاف کرنے والے کارکنان کو زیادہ عزت و تکریم سے نوازا جانا چاہیے۔ کہ یہی کارکن تو پارٹی کا اثاثہ شمار ہوتے ہیں۔ جی حضوری گہرے کنویں میں گرانے کا باعث بنتی ہے جیسا ن لیگ کے ساتھ ہوا۔ اور نثار جیسے اختلاف رکھنے والے کارکنان پارٹی کے اندر جمہوریت کو مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مگر یہاں اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور خوشامد کو وفادری سے، یہی پاکستان میں جمہوریت کا افسانہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: