تحریر: عمار مسعود
آج کل میڈیا پر سیاسی خبروں کے علاوہ ایک عدالتی نوٹس کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ” چیف جسٹس پاکستان نے پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے پی کے ایل آئی کے بجٹ اور بھرتی کیے گئے ڈاکٹرز اور عملے کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔عدالت نے پی کے ایل آئی اے میں ملازمین کے سروس اسٹرکچر کی تفصیلات بھی طلب کرلیں جب کہ چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب آج شام تک تمام تفصیلات میرے گھر پر فراہم کی جائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے نوٹس میں آیا ہے کہ 15،15 لاکھ روپے پر ڈاکٹروں کو بھرتی کیا گیا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی کے ایل آئی کے سربراہ کون ہیں۔کمرہ عدالت میں موجود چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر سعید اختر پی کے ایل آئی کے سربراہ ہیں اور وہ عمرے کی ادائیگی کے لئے گئے ہوئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سنا ہے ڈاکٹر سعید کی اہلیہ بھی پی کے ایل آئی میں تعینات کی گئی ہیں، عدالت کو تمام تر تفصیلات فراہم کی جائیں “۔ اس خبر کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ڈاکٹر سعید کے حوالے سے ایک بھیانک مہم کا آغاز ہو گیا جس کا مقصد ڈاکٹر سعید کو ایک نااہل ڈاکٹر کے طور پر پیش کرنا تھا ۔
میں یہ کالم کبھی نہ لکھتا اگر میں ڈاکٹر سعید کو ذاتی طور پر نہ جانتا ۔ قریباََ دو سال پہلے
رمضان کے مہینے میں ہمارے ایک پرانے مہربان کا فون آیا ۔ یہ وہ صاحب ہیں جو نیکی کےہر کام میں اپنا نام خفیہ رکھتے ہیں بہت ہی ثروت مند شخصیت ہیں مگر نہایت درد مند دل رکھتے ہیں۔ ان کی بات کا احترام ہم پر واجب رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا آج آپ کے گھر کھانا کھائیں گے اور آپ کو ایک لاجواب شخصیت سے ملوائیں گے۔ ان کے ساتھ آنے والی وہ لاجواب شخصیت ڈاکٹر سعید تھے۔ چند لمحوں کی گفتگو میں ڈاکٹر سعید کی وطن سے محبت واضح ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب امریکہ کے نامی گرامی ڈاکٹر تھے اور اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں واپس آئے تھے۔شفا انٹرنیشنل اسپتال میں آپ نے پاکستان کڈنی انسٹیٹیوٹ قائم کیا جہاں ڈیڑھ لاکھ مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا۔ ان تمام غریب مریضوں کو وہی سہولتیں دی گئیں جو شفا انٹرنیشنل جیسے مہنگے اسپتال میں کسی بھی امیر مریض کو حاصل ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اب پاکستان کڈنی انسٹیٹیوٹ کو پاکستان کڈنی اور لیور اسپتال بنانے چلے تھے۔ ان کے عزم کے مطابق یہ پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے عمدہ اسپتال ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب جس لگن سے اس اسپتال کا ذکر کر رہے تھے اس کے لئے ایک نشست ناکافی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے چند دن کے بعد اپنے گھر دعوت افطار پر دعوت دی۔ وہاں ایک چادر میں لپٹی نہایت سادہ خاتون سے تعارف ہوا یہ ڈاکٹر معصومہ سعید تھیں جو دنیا بھر میں جانی پہچانی انستھیزیسٹ کے طور پر کام کرچکی تھیں اور اب تک ہزاروں پیچیدہ آپریشنز کروا چکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی دو صاحبزادیاں بھی ڈاکٹر ہیں اور امریکہ میں مزید تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔افطار کی دعوت میں کھجور اور دال چاول تھے جو ڈاکٹر معصومہ نے خود بنائے تھے۔ ہماری دوست شخصیت نے بتایا کہ ڈاکٹر سعید اپنے امریکہ کے قیام میں ایک ماہ میں کئی کروڑ روپے کماتے تھے اور ان کے پاس اپنا ایک چار نشستوں والا ہائی پرفارمنس سیسنا جہاز بھی تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کی سادگی دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا مگر انکے علم و فضل کو دیکھ کر یہ لگتا تھا کہ یہ رقم انکے تجربے کے حوالے سے کم تھی۔ڈاکٹر صاحب اپنی دھن میں نئے پروجیکٹ کا ذکر کرتے رہے کہ زمین کا انتظام تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کر دیا ہے بس اب جلدی سے تعمیر مکمل ہو جائے تو ہزاروں مریضوں کا فائدہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ملاقات میں بھی اپنے اسپتال کے خواب کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کی بس ایک جنون کے عالم میں پاکستان سے اپنے عشق کا ذکر کرتے رہے اور بتاتے رہے کس طرح ایک دن ان کی کایا پلٹ گئی اور انہوں نے سوچا بہت کما لیا اب وطن کی خدمت کے لئے باقی زندگی وقف کی جائے۔ڈاکڑ صاحب کی گفتگو میں قرآن کریم کی آیات کا ذکر مسلسل رہا اور اس بات پر زور رہا کہ انسان کو اللہ کی مخلوق کی خدمت میں پہل کرنی چاہئے۔خصوصاً وہ اس حدیث کا ذکر کثرت سے کرتے رہے مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔