منزل ابھی دور ہے….؟

تاریخی طور پر پاکستان اُن خطّوں پر مشتمل ہے، جہاں صدیوں سے جاگیردارانہ، قبائلی اور دیہی طرزِ معاشرت موجود تھی۔

قیامِ پاکستان کے وقت گنتی کے چند بڑے شہر تھے، لیکن اُن کی سماجی زندگی پر بھی دیہی رنگ غالب تھا، لاہور واحد شہر تھا، جہاں کی تہذیبی اور تمدّنی زندگی دوسرے شہروں سے قدرے مختلف تھی اور وہ کسی حد تک شہری معاشرہ کہلائے جانے کے قابل تھا۔

بڑے پیمانے پر ہجرت کے نتیجے میں تعلیم یافتہ اور شہری مزاج رکھنے والے افراد کی آمد سے بالخصوص، کراچی میں ایک نئے سماج کی بنیاد پڑنے لگی، جس کے اثرات بعد میں صرف کراچی تک محدود نہ رہے.

ستّر سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود، پاکستانی معاشرے کے ابتدائی خدّوخال وہی کے وہی ہیں، خصوصاً خواتین کی حیثیت، مقام اور مرتبے کا تعیّن، صدیوں پرانی روایات کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔

دیہات وغیرہ میں اگر گھر میں پَلی ہوئی بھینس اور بیوی بیمار ہو، تو بھینس کے علاج کو ترجیح دینا عام رواج ہے۔

ایسے واقعات بھی ہوئے کہ کسی شقّی القلب نے بیٹی یا بیوی بیچ کر بھینس خرید لی۔

ایک ایسے معاشرے میں خواتین کی سماجی حیثیت میں تبدیلی کی بات کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا، تحریکِ پاکستان کے دَوران مسلم لیگ، خواتین میں سیاسی شعور بیدار کرنے کا اہم اور مشکل ترین فریضہ انجام دے چکی تھی، یہ جذبہ پوری طرح تازہ اور توانا تھا، لہٰذا مسلم لیگی خواتین نے اس جذبے کے تحت پاکستانی سماج میں خواتین کے حقوق کی تحریک کا آغاز کیا۔

’’ آل پاکستان وویمنز ایسوسی ایشن‘‘ پاکستانی خواتین کی پہلی تنظیم تھی، جس کی بنیاد فروری1949ء میں پاکستان کی خاتونِ اوّل، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور اُن کی دیگر ساتھی خواتین نے رکھی۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے مُلک میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کی بات کرنا کچھ حلقوں کی شدید تنقید کا نشانہ بنا۔

حالاں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات سے چند روز قبل مسلمانوں سے آخری خطاب میں دو باتوں پر زور دیا تھا۔

اوّل، نماز کی پابندی، دوم، خواتین کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید۔ بہرکیف، تنقید اور مخالفت کے ساتھ ساتھ یہ کارواں آگے بڑھتا ہی رہا۔ بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی اخلاقی حمایت اور تایید بھی اُسے حاصل رہی۔

اقوامِ متحدہ کی جانب سے1975 ء کا سال’’ خواتین کے عالمی سال‘‘ کے طور پر منایا گیا، جس کے بعد ایک پورا عشرہ خواتین کے نام سے موسوم ہوا، تو پاکستانی خواتین کے حقوق کی جدوجہد، عالم گیر برادری کا حصّہ شمار ہونے لگی۔

پاکستانی خواتین، اقوامِ متحدہ اور رُکن مُمالک کی خواتین کے ساتھ 8مارچ کو’’ خواتین کا عالمی دن‘‘ مناتی ہیں۔

امسال ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کا موضوع”Press for Progress”ہے۔ بلاشبہ کسی بھی میدانِ عمل میں تبدیلی اور کام یابی کے لیے دبائو ڈالنا اور پھر اُسے بڑھاتے ہی چلے جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں’’ جب تک بچّہ روئے نہیں، ماں بھی دودھ نہیں پلاتی‘‘ تو ا پنا حق لینا پڑتا ہے، شور مچا کر، چیخ چلّا کر، بعض اوقات لڑ جھگڑا کر، زور زبردستی سے بھی۔

بات چیت سے، دلیل سے، کبھی خود قائل ہوکے، کبھی کسی کو قائل کرکے، مگر حق بہرحال لینا ہی پڑتا ہے۔ تھالی میں رکھ کر کوئی پیش نہیں کرتا۔

خواتین نے’’ حقوقِ نسواں‘‘ کےحصول کی جدوجہد شروع کی تو آج، وہ کل سے بہت بہتر مقام پر ہیں، مگر ابھی بھی منزل دُور ہے، ابھی بہت جدوجہد باقی ہے اور اسی جدوجہد میں کچھ اپنا بھی حصّہ ڈالنے کے خیال سے ہم نے پاکستان میں’’حقوقِ نسواں کی تحریک‘‘ سے متعلق مُلک بھر کی چند معروف خواتین سے بات چیت کی۔

پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک کے آغاز و جدوجہد سے متعلق معروف سماجی کارکن، انیس ہارون کا کہنا ہے کہ’’ پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک یا جدوجہد کو ہم دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

پہلا دَور قیامِ پاکستان کے فوری بعد کا ہے، بیگم جہاں آرا شاہ نواز، محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی، بیگم شائستہ اکرام اللہ اور دیگر خواتین نے جو تحریکِ پاکستان میں بھی پیش پیش تھیں، خواتین کی حالت سدھارنے کے لیے سماجی کاموں کا آغاز کیا۔

’’اپوا‘‘ جیسی تنظیم قائم ہوئی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر محترمہ فاطمہ جناح نے ایّوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں حصّہ لیا، جس کی وجہ سے خواتین میں سیاسی شعور بیدار ہوا اور اُن میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ مَردوں کے معاشرے میں خواتین بھی آگے بڑھ سکتی ہیں۔

ضیاء الحق کےعہد سے حقوقِ نسواں کی تحریک کا دوسرا دَور شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا، جب خواتین کی حیثیت کم کرنے اور اُنہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی گئی۔

پاکستانی خواتین نے حدود آرڈی نینس اور قانونِ شہادت کے خلاف باقاعدہ تحریکیں چلائیں، احتجاجی جلوس نکالے، گرفتاریاں دیں۔ اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ ہمارے سیاست دانوں کو خواتین کی سیاسی حیثیت کا ادراک ہونے لگا۔

یہ ہماری جدوجہد ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تمام سیاسی جماعتوں کے منشورات میں خواتین کے حقوق سے متعلق شقیں شامل ہیں۔ ہر سیاسی رہنما، خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرتا ہے۔

خود خواتین میں بھی یہ سوچ پیدا ہوئی کہ جب تک وہ سیاست میں نہیں آئیں گی، اُن ایوانوں میں نہیں پہنچیں گی، جہاں اُن سے متعلق فیصلے کیے جاتے ہیں، حقوق نہیں ملیں گے۔

یہ سوچ پوری دنیا کی خواتین کی سوچ ہے، پاکستان میں اس سوچ کے زیرِ اثر خواتین سیاست میں حصّہ لے رہی ہیں۔

پہلے خواتین کو دس فی صد نمائندگی پر ٹرخا دیا جاتا تھا، اب 33فی صد کی بات ہو رہی ہے۔

پورے مُلک میں خواتین، اپنے حقوق کے لیے متحد ہیں، وہ زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھ رہی ہیں، لیکن یہ کام یابی مکمل نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں اب بھی خواتین کے معاملے میں تفریق پائی جاتی ہے۔ آئین کےآرٹیکل 25میں مساوی حقوق کی بات کی گئی ہے، لیکن ملازمتوں میں مساوات نہیں ہے۔

خواتین کارکنوں کو کم تن خواہیں دی جاتی ہیں، مَردوں کے مقابلے میں کام بھی زیادہ لیا جاتا ہے۔

عدلیہ اور سروسز میں بھی خواتین کا حصّہ بہت کم ہے، خصوصاً بہت ہی کم خواتین اعلیٰ عدلیہ میں پہنچ پاتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قوانین بننے کے باوجود، عورتوں پر تشدّد کم نہیں ہوا۔

خواتین پر تشدّد کے 95فی صد ملزمان کو سزائیں نہیں ملتیں، صرف پانچ فی صد کو سزائیں ملتی ہیں، جس کی وجہ سے عورتوں کے خلاف تشدّد کے واقعات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔

کراچی جیسے جدید شہر میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس معاشرے کو قبائلی معاشرہ بنایا جا رہا ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دَوران کراچی میں تیرہ عورتیں اور دس مرد غیرت کے نام پر قتل کیے گئے۔

حقوقِ نسواں کی جدوجہد آج بھی جاری ہے، لیکن اس کے لیے سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تعلیم ضروری ہے، پھر قانون کی حکم رانی، قانون کا نفاد اور انصاف ہونا چاہیے، تو کہیں جا کر طبقاتی فرق دُور ہو گا۔

پاکستان کے قومی بجٹ میں خواتین کی بہتری کے منصوبوں کے لیے خصوصی فنڈز بھی مختص ہونے چاہئیں۔ اُن کی تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے لیے منصوبے بنائے جائیں، تو یقیناً سماج میں تبدیلی آئے گی۔‘‘

عورت فائونڈیشن کی ڈائریکٹر اور معروف صحافی، مہ ناز رحمٰن، پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک کی سب سے بڑی کام یابی، سیاسی عمل میں خواتین کی بھرپور شمولیت کو قرار دیتی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ’’ پاکستان میں حقوقِ نسواں کی جدوجہد تو قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی، لیکن اس تحریک میں ایک نیا موڑ اُس وقت آیا، جب جنرل ضیاء الحق نے امتیازی قوانین کے ذریعے عورتوں کی حیثیت کم کرنے، اُنہیں قرونِ وسطیٰ کے دَور میں واپس دھکیلنے کی کوشش کی۔

ضیاء الحق نے 1979ء میں حدود آرڈی نینس جاری کیا۔ ء میں فہمیدہ اللہ بخش کیس سامنے آیا، جس میں ایک شادی شدہ جوڑے کو زنا کے الزام میں کوڑے لگانے اور سنگسار کرنے کی سزا سنائی گئی، پھر قانونِ شہادت میں ترمیم کا معاملہ اٹھا، جس کے تحت عورت کی گواہی کو نصف قرار دیا گیا تھا، لہٰذا پڑھی لکھی اور باشعور خواتین کو اپنےحقوق کے حصول اور حیثیت منوانےکے لیے سڑکوں پر نکلنا پڑا ’’خواتین محاذ عمل‘‘ (WAF) بنایا گیا۔ 12

فروری 1983ء کو خواتین نے لاہور کے مال روڈ پر جلوس نکالا۔ عوامی شاعر، حبیب جالب بھی جلوس میں شامل تھے۔

پولیس نے خواتین کو روکنے کی کوشش کی اور اُن پر لاٹھی چارج کیا۔ تقریباً پچاس خواتین گرفتار کر لی گئیں۔

لاٹھی لگنے سے حبیب جالب کا سر پھٹ گیا، اس واقعے کی یاد میں ہم ہر سال، 12فروری کو ’’پاکستانی عورتوں کا دن‘‘ مناتے ہیں۔ حقوقِ نسواں کی جدوجہد کی سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ ہمارے مُلک میں خواتین کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے، ہر سیاسی جماعت، سیاسی عمل میں اُن کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

اب خواتین کونسلر بھی بنتی ہیں، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی رُکن بھی منتخب ہوتی ہیں۔ ایوانِ بالا میں بھی اُن کی نمائندگی ہے، اس جدوجہد کے نتیجے میں خواتین متحرّک ہوئی ہیں۔

اُن کی آواز پورے مُلک میں سُنی جاتی ہے۔ اُن کی کوششوں کے نتیجے میں قوانین تشکیل دیے گئے ہیں۔ اگرچہ ان پر عمل درآمدکی رفتار سُست ہے۔‘‘

معروف قانون داں، جسٹس (ریٹائرڈ) ناصرہ جاوید اقبال، تحریکِ پاکستان میں خواتین کی بھرپور شمولیت کا حوالہ دیتے ہوئے ہر شعبۂ زندگی میں خواتین کی موجودگی کو سب سے بڑی کام یابی قرار دیتی ہیں۔

اُن کا کہنا ہے’’ ہمارے مُلک میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے، اپنی پسند کی ملازمت اختیار کرنے، ووٹ دینے کی آزادی ہے۔

اس وقت ایسی کوئی جگہ نہیں، جہاں خواتین موجود نہ ہوں، عدلیہ میں، آرمی میں، فضائیہ میں، پولیس میں، ہرجگہ خواتین ملازمت کر رہی ہیں۔

پہلے دیہی خواتین کو ووٹ دینے سے روکا جاتا تھا، گھر میں بند کر دیا جاتا تھا، مگر اب قانون موجود ہے کہ جس انتخاب میں خواتین کے ووٹ نہیں پڑیں گے، وہ انتخاب منسوخ ہو جائے گا، لیکن انتخابی عمل میں بھی ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر مرد ارکان اُن کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ خواتین ہی اپنی نمایندہ خواتین کا انتخاب کریں۔ پھر ایک مسئلہ ملازمتوں میں خواتین کی ترقّی کا ہے، جہاں اُنہیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور مرد آگے نکل جاتے ہیں۔

پاکستان نے خواتین کے حقوق کے عالمی منشور پر دست خط کیے ہیں، جس کے مطابق ملازمتوں میں خواتین کا حصّہ 30فی صد ہونا چاہیے، لیکن ہمارے مُلک میں کہیں بھی اس پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ خود میرے اپنے شعبے یعنی عدلیہ کا حال یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں صرف دو خاتون ججز ہیں، جب کہ ججز کی موجودہ تعداد کے لحاظ سے کم از کم 20خاتون ججز ہونی چاہئیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی خاتون سپریم کورٹ کی جج نہیں بن سکی ہے۔ ایک اور اہم معاملہ جس پر غور نہیں کیا جا رہا ہے، فیملی پلاننگ کا ہے۔

ہمارے مُلک میں فیملی پلاننگ کی بہت ضرورت ہے۔ یہ خواتین کی صحت کا معاملہ اور بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 92

فی صد دیہی خواتین اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ شہروں میں تو یہ سہولت موجود ہے، مگر دیہی علاقوں میں خواتین کی ان مراکز تک رسائی ہی نہیں ہے، جہاں اُنہیں یہ سہولت دست یاب ہو۔

میرے خیال میں خواتین کی تنظیموں کو اس حوالے سے زیادہ کام کرنےکی ضرورت ہے۔‘‘

قومی اسمبلی کی سابق رُکن اور رہنما جماعتِ اسلامی، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا’’ حقوقِ نسواں کی تحریک کے حوالے سے میرا بنیادی تصوّر یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیّے ہیں۔

اگر خواتین کو اپنے حقوق کے لیے کوئی تحریک چلانی ہے تو مَردوں کو اپنا حلیف سمجھ کر چلائیں، حریف نہ سمجھیں۔ اپنا رفیق اور مددگار سمجھیں۔

دوسرا یہ کہ حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کا بھی خیال رکھیں، اپنی ذمّے داریوں کو بھی سمجھیں۔ کیوں کہ فرائض پورے کرنےسے حقوق خود بہ خود مل جاتے ہیں۔ چھیننے سے نہیں ملتے۔ مَیں حقوقِ نسواں کی تحریک کی پہلی کام یابی اس کو سمجھتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں عورت مجبور اور مظلوم تھی اور سمجھی جاتی تھی۔

جب خواتین نے اپنے حقوق کا سوال اٹھایا تو یہ تاثر نہ صرف ختم ہوا، بلکہ معاشرے میں کچھ بہتری بھی آئی۔ مَیں اس حقیقت کا اعتراف بھی کرنا چاہوں گی کہ ہمارے معاشرے میں عورت دہرے جبر کا شکار ہے۔

اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں، وہ بھی اُسے پوری طرح نہیں مل رہے ہیں اور نہ وہ جو جدید دنیا اور جدید معاشرہ دیتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی معاشرتی اقدار سے باغی ہو جائیں۔ کچھ غلطی عورتوں سے بھی ہوئی ہے۔ حقوق کے ساتھ وہ آزادی بھی طلب کرنے لگیں ، بھئی آزادی کس چیز کی اور کس بات کی؟ ہمیں اپنی روایات ، تہذیب اور رسم ورواج کے تحت تحریک چلانی چاہیے۔ معاشرتی اقدار کے خلاف کھڑا نہیں ہونا چاہیے، ہمارے معاشرے میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر آپ اس کے خلاف چلیں گے، تو پزیرائی کہاں سے ملے گی؟ بہرحال مَیں حقوقِ نسواں کی تحریک کے نتیجے میں خواتین میں شعور کی بیداری ہی کو اصل کام یابی کہوں گی۔‘‘

ممتاز سماجی رہنما، فرزانہ باری کا اس ضمن میں مؤقف ہے کہ’’ اگر آپ پاکستان میں خواتین کی سماجی حالت دیکھیں، خاص طور پر دیہی اور پس ماندہ علاقوں میں تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک اتنی کام یاب نہیں ہوئی، جتنی ہونی چاہیے تھی، لیکن یہ تحریک کسی حد تک کام یاب بھی ہوئی ہے۔ کام یابی یہ ہے کہ ریاست کی سطح پر خواتین کے حقوق تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ اُنہیں مَردوں کے برابر شہری مانا گیا ہے، آئین میں کہا گیا ہے کہ کوئی صنفی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ دوسری طرف مملکتِ پاکستان نے اُن عالمی قوانین پر دست خط کیے ہیں، جو خواتین کے حقوق سے متعلق ہیں۔ ہمارے مُلک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی بھی ہوئی ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن سماجی سطح پر خواتین کے حالات کچھ خاص تبدیل نہیں ہوئے۔ صنفی امتیاز کے انڈیکس میں ہم بہت نیچے ہیں، شاید 143 ویں نمبر پر ہیں۔

ملازمت پیشہ خواتین ہوں یا گھریلو خواتین، صنعتی اداروں میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنے والی مزدور خواتین ہوں یا بڑے عُہدوں پر کام کرنے والی عورتیں، انہیں برابری حاصل نہیں ہے۔ دوسری جانب، خواتین پر تشدّد کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ معاشرے میں ناہم واری بہت ہے۔ جب ریاست، عام آدمی کو اس کے حقوق نہ دے رہی ہو، تو صنفی حوالے سے حالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک مضبوط نہیں ہے۔ عورتوں کے حقوق کی بات تو ہوتی ہے، لیکن ہمارے اپنے عام گھرانوں میں کیا صُورتِ حال ہے، آپ وہی دیکھ لیں، حقوقِ نسواں کی تحریک، دراصل انسانی حقوق کی تحریک ہے۔ لیکن اس کے پیچھے متحرّک لوگ نہیں ہیں اور خاص طور پر عاصمہ جہانگیر کے چلے جانے کے بعد تو اس تحریک کو بڑا دھچکا پہنچا ہے۔

ایک خلا پیدا ہوا ہے، جو آسانی سے پُر نہیں ہو گا۔ پاکستان میں خواتین دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ کیوں کہ ان کے پیچھے طاقت نہیں ہے، اگرچہ صنفی مساوات کا تصوّر بڑا مقبول ہے، لیکن یہ محض ایک نعرے کی حد تک محدود ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین آج بھی کم زور حیثیت ہی کی مالک ہیں اور جب تک ہم خواتین سے متعلق پوری سوچ تبدیل نہیں کریں گے، حقوقِ نسواں کی تحریک مضبوط نہیں ہو گی۔‘‘

ممتاز شاعرہ اور ماہرِ تعلیم، ڈاکٹر شاہدہ حسن، خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے حوالے سے دیکھتی ہیں، اُن کا کہنا ہے’’ چوں کہ ہمارے مزاج میں عجب قسم کی انتہا پسندی ہے، اس لیے حقوقِ نسواں کی تحریک بھی انتہا پسندی کی زد میں آ گئی ہے۔ دراصل ہمارے ہاں یہ تصوّر مغرب سے آیا ہے، جہاں آزادی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، یقیناً ہم اپنے معاشرے میں وہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ مغرب میں جو قوانین موجود ہیں، وہ صرف خواتین کے لیے نہیں، تمام انسانوں کے لیے ہیں۔

آپ عورت ہیں یا مرد، اگر آپ کا حق پامال ہوا ہے، تو قانون آپ کی داد رَسی کے لیے موجود ہے، لیکن ہمارے ہاں ہر چیز کو فرضی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ یہاں خواتین ہی پر نہیں، مَردوں پر بھی ظلم ہو رہا ہے۔ بچّوں پر بھی روز قیامت گزر رہی ہے۔ بچّیاں قتل ہو رہی ہیں، تو ایسے میں خواتین کے حقوق کی بات کرنا، خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ یہاں عدل و انصاف کسی کو حاصل نہیں، ہم ایک پُرتشدّد معاشرے میں جی رہے ہیں اور خواتین کے حقوق، انسانی حقوق سے علیٰحدہ نہیں ہیں۔

ہم اگر تمام طبقات کے ساتھ مل کر ایک باعزّت سماج کے قیام کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے ہمیں ذہنی تبدیلی لانا ہو گی۔ خواتین کے حقوق، کاغذ کی بجائے عملاً نافذ ہوں، تو ہی بہتری آئےگی۔ میرا ایک شعر ہے؎ قدم پہ خود ہی کُھلیں گی راہیں، سحر سے خود سلسلہ ملےگا…ہم اپنےسارے چراغ لے کر چلیں گے، تب راستہ ملے گا۔‘‘

سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر، شہلا رضا خواتین کے حقوق کی تحریک کو عالمی تناظر میں دیکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’دُنیا میں حقوق کی کوئی بھی تحریک ہو، اس کا اختتام نہیں ہوتا۔ یہ ایک مستقل جدوجہد یا یوں کہیے، ایک مستقل جنگ ہوتی ہے۔ بالادست طبقوں کے خلاف، اُن لوگوں کے خلاف جو حقوق پر قابض ہوتے ہیں۔

معاشرے کے ٹھیکے دار بنتے ہیں۔ مذہب کے نام پر تو کبھی خاندانی رسم و رواج کے نام پر اپنی دُکان چمکاتے ہیں۔ پھر اس کے علاوہ معاشرے کے اندر خود بھی ایسے معاملات ہوتے ہیں، جو صنفی تفریق کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین نے غیرمنظم ہونے کے باوجود ان دائروں کو ختم کیا ہے، جو لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ ہم نے بہت سے سرکل توڑ دیئے ہیں۔

اگر توڑ نہیں سکے ہیں، تو اُن میں دراڑیں ضرور ڈال دی ہیں، جس معاشرے میں خواتین کے ووٹ دینے کی ممانعت تھی، اب انتخابات کے موقعے پر پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ان کی لمبی لمبی قطاریں ہوتی ہیں۔سیاسی جماعتوں پر پابندی ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے اُمیدواروں میں پانچ فی صد خواتین کو بھی شامل کریں گی۔ اس طرح جس انتخاب میں خواتین کی ووٹنگ کی شرح دس فی صد سے کم ہوگی وہ انتخاب کالعدم قرار پائے گا۔ دیہی علاقوں میں خواتین کی سماجی حیثیت سدھارنے کے لیے غیرمحسوس طریقے سے اقدام کیے جا رہے ہیں۔ بچیوں کو اسکول بھیجنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تا کہ مستقبل میں معاشرہ تعلیم یافتہ خواتین پر مشتمل ہو۔ ایک سے زائد بچیوں کو اسکول بھیجنے پر خصوصی رعایت بھی ملتی ہے۔

حقوق نسواں کی تحریک قطعاً ناکام نہیں ہے۔ میری نانی یا دادی، جو تصور نہیں کر سکتی تھیں، وہ ہم کر رہے ہیں۔ مستقبل کی پوتیاں، نواسیاں اس سے زیادہ آگے جائیں گی۔ معاشرے کو ہم سے زیادہ بہتر بنائیں گی۔ ہمارے ملک میں مریم مختار بھی ہے۔ عاصمہ جہانگیر اور ملالہ کا نام بھی ہے۔ جامعہ کراچی میں 60 فیصد طالبات ہیں۔ ہم سب ہر جگہ ہیں اور ہر جگہ ہوں گی۔ ہو سکتا ہے ہم پر بے دین ہونے کے فتوے لگائے جائیں۔ معاشرتی بے راہ روی کا الزام لگا کر ہماری جدوجہد کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائےگی مگر ہم اپنے محاذ پر ڈٹی رہیں گی اور یہ جنگ جاری رہے گی۔ حالات کے تحت ہماری جدوجہد ٹھنڈی پڑ سکتی ہے، مگر ناکامی کا کوئی سوچے بھی نا!!‘‘

سندھ اسمبلی کی خاتون رکن، سسی پلیجو نے قیام پاکستان کے بعد مختلف اَدوار میں خواتین کی جدوجہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’پاکستانی خواتین نے بہت سختیاں جھیلی ہیں۔ خود میرے گھر کی تقریباً تمام خواتین قید و بند کے مراحل سے گزری ہیں۔ میری والدہ اختر بلوچ کو فوجی عدالت سے سزا ہوئی، میری پھوپھی، نانی وغیرہ پر بھی مقدمے بنے۔

خود میں نے بھی پہلی مرتبہ عدالت اس وقت دیکھی، جب میری نانی مجھےگود میں لے کر پیشیاں بھگتنے جاتی تھیں۔ جنرل ضیا کے دور میں ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی خواتین پیش پیش تھیں۔ انہوں نے ملک کے سیاسی حالات بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہماری جدوجہد سے راستہ کھلا، دیہی خواتین میں شعور آیا ہے۔ پرائمری تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے خواتین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے خاصے اہم اقدام کیے ہیں۔

خواتین کے علیحدہ تھانوں کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہم مذہب اور معاشرے کے اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی تحریک آگے لے جا رہے ہیں، لیکن پورے ملک میں ہر جگہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ شہر ہوں یا دیہات، ہر جگہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ہم اپنی تحریک کے ذریعے اس رُجحان کو ختم کریں گے۔ اس مقصد کے لیے ہماری تحریک کا بنیادی نکتہ تعلیم کا فروغ ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پسماندہ علاقوں میں بھی لڑکیوں کو تعلیم دینے کا رواج چل نکلا ہے اور میری نظر میں یہی سب سے بڑی کام یابی ہے۔‘‘

سندھ اسمبلی میں حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی، نصرت سحر عباسی، جو اسمبلی کی انتہائی فعال اور شعلہ بیان مقرر شمار کی جاتی ہیں، پاکستان میں حقوقِ نسواں کی تحریک کے نتیجے میں سیاسی اور سماجی شعور کی بیداری کو ایک اہم موڑ قراردیتی ہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ’’ جب کوئی تحریک شروع ہوتی ہے، تو یہ ہرگز ضروری نہیں کہ پہلے ہی مرحلے میں وہ کام یاب بھی ہو جائے، لیکن اس کے اثرات ضرور مرتّب ہوتے ہیں اور کچھ ثمرات بھی حاصل ہوتے ہیں۔

حقوقِ نسواں کی جدوجہد کی سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں شعور بیدار ہوا، خواتین میں یہ سوچ بیدار ہوئی کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ دوسری کام یابی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مکمل طور پر نہ سہی، خواتین کے کچھ حقوق تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ ہمارا معاشرہ، بنیادی طور پر مَردوں کا معاشرہ ہے۔ ایک مرد برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ کوئی عورت اُس سے آگے بڑھ جائے، چاہے وہ گھریلو عورت ہو یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والی۔ مرد کی خواہش اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ عورت ایک قدم پیچھے ہی رہے،

یہ ایک طرح کا مائنڈ سیٹ ہے، جسے تبدیل ہونے میں وقت لگے گا، مگر یہ حقوقِ نسواں ہی کی تحریک کا نتیجہ ہے کہ آج عورت کسی حد تک آزادی سے کام کر رہی ہے۔ اپنی حیثیت منوا رہی ہے، اگرچہ آج بھی ہمارے دیہات اور شہروں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ عورت کو آزادی نہیں دینی چاہیے، اُسے دَبا کر رکھنا چاہیے۔ اس سوچ کے نتیجے میں خواتین کے حقوق سلب ہو رہے ہیں اور اُنہیں اپنا اصل مقام اور حیثیت نہیں ملی ہے، یعنی حقوقِ نسواں کی جدوجہد کا ایک مرحلہ ابھی باقی ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس جدوجہد کا اختتام کہاں ہو گا۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اس کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے۔ ہم اپنی منزل پر نہیں پہنچے، ہمارا سفر ابھی جاری ہے اور اُس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک معاشرے میں خواتین کے بارے میں پائی جانے والی امتیازی سوچ کا خاتمہ نہ ہو جائے۔‘‘

’’حقوقِ نسواں کی جدوجہد کے حوالے سے سب سے اہم پیش قدمی یہ ہے کہ خواتین اب اپنے حقوق کے بارے میں مکمل آگاہی رکھتی ہیں، لیکن اصل منزل ابھی دُور ہے۔‘‘

ممتاز شاعرہ، عنبریں حسیب عنبر نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا‘‘ لیکن جہاں تک ادب کا تعلق ہے، خواتین کو پہلے فکری آزادی نہیں تھی، لیکن اب خواتین کا ادب اٹھا کر دیکھ لیجیے، وہ بڑی بے خوفی سے اپنی رائے کا اظہار کر رہی ہیں۔

پاکستان سے باہر اپنے مُلک کی نمایندگی کا حق بھی ادا کر رہی ہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ گھر میں ان کے اصل مقام اورحیثیت کا تعیّن ابھی باقی ہے۔ وہ گھریلو تشدّد کا شکار ہیں۔ غیر شادی شدہ ہیں، تو بھائی ان کا چوکیدار بنا ہوا ہے۔

شادی شدہ ہیں، تو شوہر کی طرف سے پابندیاں ہیں۔ ویسے خواتین نفسیاتی طور پر بھی خود ترسی کا شکار رہتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو کم تر محسوس کرتی ہیں، تو خواتین کو اس احساسِ کم تری سے بھی باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ اُنہیں چاہیے کہ اپنے حقوق اور اپنی آزادی کا درست استعمال کریں۔

یہ خواتین ہی تو ہیں، جو ظلم کے سامنے سینہ سَپر ہوتی ہیں۔ جرأتِ اظہار کرتی ہیں، جہاں مرد دَم سادھ لیتے ہیں۔ خواتین آواز اٹھاتی ہیں۔؎ مَیں سرافراز ہوں تاریخ کے کرداروں میں…مَیں رہی شعلہ نوا، شام کے درباروں میں…قدر یوسف کی زمانے کو بتائی مَیں نے…تم تو بیچ آئے اُسے مصر کے بازاروں میں۔‘‘

ہر سال 8مارچ کا دن’’ خواتین کے عالمی یوم‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن، خواتین کی مختلف شعبوں میں حاصل کی گئی کام یابیوں کو سراہا جاتا ہے، تو اُنھیں درپیش مسائل پر بھی بات ہوتی ہے۔ مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اس موقعے پر دنیا بھر میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں رنگ و نسل اور مذہب و ثقافت کی کسی تفریق کے بغیر خواتین شرکت کرتی ہیں۔ اس طرح کی سرگرمیاں جہاں ایک طرف خواتین کے لیے تقویّت کا باعث بنتی ہیں، تو اس سے اُن میں آگے بڑھنے کی لگن بھی پیدا ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ اس دن کی مناسبت سے ہونے والی تقاریب، خواتین کے حقوق سے آگاہی کا بنیادی اور اہم ذریعہ بھی ہیں۔ تاریخی طور پر خواتین کے عالمی دن کا آغاز، جنوبی امریکا اور یورپ میں مزدور تحریک سے ہوا، جب 1908ء میں کپڑے کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین نے ڈیوٹی کے دَوران حالات ساز گار نہ ہونے پر فیکٹری مالکان کے خلاف آواز اٹھائی، جس کے نتیجے میں 28فروری 1909ء کو باقاعدہ طور پر خواتین کا دن منایا جانے لگا، بعدازاں اسے8 مارچ میں بدل دیا گیا۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں اور این جی اوز کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں، 1945ء میں اقوامِ متحدہ کے تحت پہلا بین الاقوامی معاہدہ عمل میں آیا، جس میں اس بات پر شدّومد سے زور دیا گیا کہ مَرد و عورت، دونوں معاشرے کا لازم جزو ہیں، اس لیے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ خواتین کو معاشرے میں مساوی حقوق حاصل ہوں۔ خواتین کا بااختیار ہونا ہمیشہ سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے کی خصوصیت رہی ہے اور آج بھی وہ اس حوالے سے خاصی سرگرم ہے۔

خواتین ہماری مُلکی آبادی کا تقریباً نصف ہیں، مگر اس کے باوجود اُن کے حقوق سے چشم پوشی کی روش عام ہے۔ مُلکی سطح پر خواتین کی ترقّی کے جو اعلانات کیے جاتے ہیں، اُن میں سے نصف پر بھی عمل کی نوبت نہیں آتی اور اس کا واضح ثبوت ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں وہ خواتین ہیں، جو ان خوش نُما اعلانات کے باوجود بھی کسم پُرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج کے ترقّی یافتہ دَور میں بھی ہم جیسے معاشرے میں خواتین کی حیثیت، دوسرے درجے کے شہری ہی کی سی ہے۔ حالاں کہ یہ ایک عالمی طور پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ وہی معاشرہ موزوں انداز میں ترقّی کی منازل طے کر سکتا ہے، جس میں خواتین کو برابری کے حقوق حاصل ہوں۔ ہمارے مُلک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کےنام سے پکارا جاتا ہے، مگر ایک اسلامی مُلک ہونے کے باوجود، کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ یہاں بھی خواتین کو وہ حقوق حاصل نہیں، جن کا تعیّن اسلام میں کیا گیا ہے۔ اسلام نے تو عورت کو وہ حقوق دیے ہیں، جن کا اس سے قبل تصوّر تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عرب، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا عزّت و بہادری کی علامت سمجھتے اور اُنھیں وراثت سے محروم رکھا جاتا، لیکن حضرت محمدﷺ نے ان تمام جاہلانہ رسوم کا خاتمہ کردیا اور عورت کو وہ مقام اور عزّت عطا فرمائی کہ جس کی وہ مستحق تھی۔ ہمارے ہاں اکیسویں صدی میں بھی مختلف رسم و رواج کے نام پر خواتین کے استحصال کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ میں کارو کاری کے نام پر خواتین کو موت کی وادیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے، تو پنجاب اور کے پی کے میں وَنی اور سوارہ جیسی بے رحم رسوم کے تحت، کم عُمر لڑکیوں کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔ کہیں عورت سے چھٹکارا پانے کے لیے چولھا’’ پھٹ‘‘ جاتا ہے، تو کہیں بے خوف و خطر تیزاب پھینک کر اُس کا چہرہ بگاڑ دیا جاتا ہے اور پھر ظلم تو یہ ہے کہ اس طرح کے مظالم میں ملوّث افراد، سینہ چوڑا کر کے بھی پِھرتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں بھی متعدّد شعبوں میں خواتین کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، جنھیں سراہا جانا چاہیے، تاہم عالمی یوم کی مناسبت سے اُن چند معاملات پر بھی بات کرنا جو، قدم قدم پر خواتین کے لیے اذیّت کا سبب بنتے ہیں، ازحد ضروری ہے۔ بہ حیثیت ترقّی پزیر مُلک، ہمارے ہاں نئے شادی شدہ جوڑے خاندان، عزیر و اقارب اور دوست احباب کے حوالے سے ذہنی دبائو کا شکار نظر آتے ہیں، کیوں کہ اس قسم کے معاشروں میں اولاد پیدا کرنے کی سو فی صد ذمّے داری صرف عورت پر عاید ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں شادی کے 6ماہ بعد ہی خواتین اولاد کے سلسلے میں پریشانی، ذہنی دبائو اور احساسِ کم تری جیسی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، 8سے 12فی صد نئے شادی شدہ جوڑے ایسے ہوتے ہیں، جن میں خواتین کو بہ وجوہ حاملہ ہونے میں مشکل درپیش ہوتی ہے اور پوری دنیا میں اس قسم کے جوڑوں کی تعداد، لگ بھگ پچاس سے اسّی ملین کے قریب ہے۔

ترقّی پزیر مُمالک کے ایک تجزیے کے مطابق، مَردوں کے زیرِ اثر معاشرے میں ایسی خواتین، جو قدرتی طور پر بانجھ پَن کی بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں، سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ اس صُورتِ حال کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان معاملات میں دخل اندازی کرنا اور اپنی رائے کا اظہار کرنا خاندان تو خاندان، پورا معاشرہ اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح مزید واضح ہو جاتی ہے کہ ایک نیا شادی شدہ جوڑا، جب حال ہی میں ہنی مون سے واپس لَوٹا، تو خاتون سے’’ بچّے کب ہوں گے… ہم منّے کا چہرہ کب دیکھیں گے…کیا تم لوگ فیملی پلاننگ کر رہے ہو…اب کس بات کا انتظار ہے، تین مہینے تو پہلے ہی گزر چکے ہیں،‘‘ جیسے سوالات کیے گئے، جب کہ اُس کے شوہر کو اس طرح کے سوالات سے ایک طرح کا استثنا دے دیا گیا۔ عورت کے لیے اولاد نہ ہونا، اُس وقت انتہائی اذیت کا باعث بن جاتا ہے، جب اُسے بغیر کسی طبّی وجہ کے اپنے طور پر ہی’’ بانجھ‘‘ کے خطاب سے نواز دیا جائے، ہمارے معاشرے میں ایسی عورت کو ناکارہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مَردوں اور عورتوں میں بانجھ پَن کا تناسب، 60اور40 فی صد ہے۔ یہ صُورتِ حال عورت کو مختلف نفسیاتی مسائل سے دوچار کرتی ہے، تو اس کے ازدواجی تعلق پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ نیز، زندگی میں ایک بے یقینی کی سی کیفیت دَر آتی ہے، جو بہ ذاتِ خود بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ مَرد کی حکم رانی والے معاشرے میں، شادی شدہ خاتون کا اولاد سے محروم رہنا عورت کے لیے سب سے بڑی مشکل ہے۔ اولاد نہ ہونے کی بڑی وجہ چاہے خود مَرد ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی عورت ہی کو ہر طرح کے علاج اور گھریلو ٹوٹکوں کے عمل سے گزارا جاتا ہے، جب کہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ جسمانی نظام، ذہنی دبائو میں ایسے ہارمونز پیدا کرتا ہے، جو دماغ کو یہ سگنلز بھیجتے ہیں کہ’’ اس وقت ایک نئی زندگی کو جنم دینے کے لیے جسمانی نظام سازگار نہیں‘‘ یہ ہارمونز، آگے چل کر بانجھ پَن کو بڑھاوا دیتے ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ توجّہ ہے کہ عورت کی مشکلات اولاد کے پیدا ہونےکے بعد بھی ختم نہیں ہوتیں، کیوں کہ خاندان والے بچّے کو گود میں لے کر پیار بَھری باتوں کے علاوہ، بچّے کے خدوخال پر تنقید کے نشتر برسانے سے بھی باز نہیں آتے۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ حوّا کی ہر بیٹی ہی بے مثال ہے اور صرف ماں ہونا ہی اس کی واحد خُوبی نہیں ہونی چاہیے۔ جب تک ہم اپنی محدود سوچ سے باہر نہیں آئیں گے، بے شمار خواتین، جو کسی نہ کسی وجہ سے ماں نہیں بن پاتیں، احساسِ کم تَری، مختلف ذہنی دبائو اور نفسیاتی مسائل کا شکار رہیں گی۔ آئیں، آج ہم حقیقی معنوں میں یہ عہد کریں کہ ہم معاشرے میں عورت کو عزّت اور مقام صرف اس کی صلاحیت کی بنیاد پر دیں گے، جو کہ اس کے اختیار میں ہے، نہ کہ ان چیزوں پر، جس پر اُس کا کوئی اختیار نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: