ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

تحریر:عبدالمجید ساجد ….

کچھ آوازوں کو وجود کی نہیں وجدان اور شعور کی سماعت سے سننا پڑتا ہے ،انہیں سمجھنے کے لیے عام بصیرت نہیں بلکہ تعصب سے پاک نظر چاہئے۔ لوگوں کو ان کے مسلک اور مذہبی افکار کےبجائے ان کے فکری اعمال پر پرکھنے سے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیںاور سماجی استحصال سے نبرد آزماہوتے ہیں۔

پاکستان کے محروم طبقوں کی دبنگ آواز عاصمہ جہانگیر گذشتہ روز خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بے زبانوں، بے سہاروں اور ظالموں کے ستائے ہوئے مظلوموں کی آواز خاموش ہو گئی۔

66 سالہ عاصمہ جہانگیر سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی علمبردار کے طور پر جانی جاتی تھیں۔عاصمہ جہانگیر27 جنوری 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئی تھیں۔عاصمہ جہانگیر سچائی کا ایک نام ہے ، وہ سچائی جو کبھی خوف زدہ نہیں ہوتی،و ہ سچائی جس کو دبایا نہیں جا سکتا اور وہ سچائی جو مشکل حالات میں بھی خاموش نہیں رہتی۔

دور ظلمت میں جب بڑے بڑے طرم خان جب گونگے بن گئے تھے یا اپنے منہ پر تالے لگا لئے تھے تب جو آوازیں سنائی دیتی تھی جو سچ اور حق پر ہوتی تھیں ان میں ایک آواز عاصمہ جہانگیر کی بھی تھی۔ عاصمہ میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہمیشہ سے رہا کہ جسے وہ سچ سمجھتی بول دیتی جبکہ دوسرے ایسا سوچتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتے تھے ۔

یہ ہمت اور حوصلہ عاصمہ کو وراثت میں ملا صبیحہ صلاح الدین جیسی ماں اور ملک غلام جیلانی جیسا باپ اپنی اولاد کو وہی دے سکے جو انہوں نے جمع کیا یعنی بے خوفی سے حق اور سچ کا ہمیشہ ساتھ دیا کیونکہ ان کی اپنی زندگی مصائب و مشکلات اورقید و بند میں گزری مگر کبھی انہیں کوئی خرید نہ سکا۔وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھیں۔

اس کے علاوہ انسانی حقوق کی علمبردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی اپنی سماجی ذمہ داریاں نبھاتی رہیں۔وہ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر بھی رہ چکی ہیں۔ وہ دو کتابوں کی مصنفہ بھی تھیں۔عاصمہ جہانگیر غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل شخصیت تھیں‘ وہ ابھی اکیس برس کی اسٹوڈنٹ تھی کہ ان کے والد کو جنرل یحییٰ خان نے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا، اپنے والد کی رہائی کے لیے وہ پاکستان کے ہر بڑے وکیل کے پاس گئیں لیکن سب نے کیس لینے سے انکار کردیا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے والدکا کیس خود لڑیں گی، عدالت نے اجازت دی اور اس بہادر بیٹی نے نہ صر ف اپنے والد کو رہا کرایا بلکہ ڈکٹیٹر شپ کو عدالت سے غیر آئینی قرار دلوا کر پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا اسی کارنامے کی وجہ سے ذوالفقارعلی بھٹو کو سول مارشل لاختم کرنا پڑا اور ملک کا آئین فوری طور پر تشکیل دیا گیا۔ ان کا یہ کیس پاکستان کی تاریخ میں عاصمہ جہانگیر کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

عاصمہ جہانگیر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بانی اراکین میں شامل ہیں‘ اس کے علاوہ وہ خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز پر مبنی قانون سازی کے خلاف مزاحمت کے لیے قائم کردہ ’ویمن ایکشن فورم‘ کی تشکیل میں بھی پیش پیش رہیں۔

وہ مقدمات جن کی بنیاد پر عاصمہ جہانگیر کو مظلوموں کی ماں قرار دیا گیا کہ پاکستان میں جہاں کہیں ظلم ہو گا، وہاں یہ عورت کھڑی ملے گی۔ 1983میں تیرہ برس کی نابینا لڑکی صفیہ بی بی سے زیادتی ہوئی اور وہ حاملہ ہو گئی۔ صفیہ بی بی کو عدالت نے قید اور جرمانے کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا کیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی کے گواہ نہیں لا پائی تھی اور ملزمان نے ثابت کردیا تھا کہ صفیہ بی بی نے اپنی رضامندی سے یہ گناہ کیا۔عاصمہ جہانگیرنے یہ کیس لڑا اور مظلوم صفیہ کو بچالیا، ضیاالحق کے اس دورمیں عاصمہ جہانگیر نے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی۔ جس پر پولیس تشدد پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک باب ہے۔

1993 میں 14برس کے سلامت مسیح کو مذہب کی توہین کے جرم میں سزائے موت ہوگئی، ایسے حساس کیس کو کون لڑتا، اس موقع پر عاصمہ جہانگیر آگے آئی اور اس نے سلامت مسیح کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ عدالت کو ماننا پڑا کہ سزائے موت کا فیصلہ غلط تھا اور کچھ شرپسندوں نے مذہب کا نام استعمال کرکے ننھے بچے کو پھنسایا۔

اس کے علاوہ پاکستان میں کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتی تھی، پاکستان کا آئین بھی یہی کہتا تھا۔عاصمہ جہانگیر نے عدالت سے پاکستان کی عورت کو اس کا آئینی ومذہبی حق دلایا کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی شادی کرسکتی ہے۔ مزدور اور ورکر کلاس کے حقوق کا تحفظ اور اس پر قانون سازی میں بھی عاصمہ جہانگیر کا کردار ناقابل فراموش ہےاور وہی ان قوانین کا بنیادی محرک ثابت ہوئیں۔

عاصمہ جہانگیرکی شخصیت کا اگر اندازہ کرنا ہوتو اس کی بے نظیر بھٹو سے مثالی دوستی اور مثالی مخالفت قابل ذکر ہے، بے نظیربھٹو اور عاصمہ جہانگیر بچپن کی سہیلیاں تھیں۔بے نظیر بھٹو نے عاصمہ جہانگیر کو پاکستان کی پہلی خاتون جج بننے کی آفر بھی دی مگر اپنے اصولوں اور عزائم کی وجہ سے انہوں نے انکار کر دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ ہر دور میں عاصمہ جہانگیر نے بے نظیر بھٹوکی زبردست سیاسی مخالفت کی۔وہ حق پرست تھیں اور یہی فخر ساری زندگی ان کے ساتھ رہا۔ اپنے سیاسی اور مذہبی اختلافات کے باوجود عاصمہ جہانگیر کا معاشرے کے تمام اہل فکر سے اچھے تعلقات رہے ،چاہے و ہ دائیں بازو کی سیاسی سوچ کے حامل ہوں یا دائیں بازو کی سیاست کے علم بردار۔

یہ لڑکی جب ٹین ایجر تھی تو ایوب خان اور یحییٰ خان کے خلاف لڑی، نوجوان ہوئی تو ذوالفقارعلی بھٹو کے غلط اقدامات کے خلاف آوازاٹھائی، یہ ضیاالحق کے خلاف جمہوریت پسندوں کی ننھی ہیروئن کہلاتی تھی، یہ اپنی بہترین سہیلی بے نظیر بھٹو سےبھی لڑی، اس نے نوازشریف کے اقدامات کو چیلنج کیا اور یہ پرویز مشرف کے لیے سوہان روح بن گئی۔وہ غلط اور نا حق کے خلاف ہمیشہ بولی، اس نے کوڑے کھائے ، مگر ہمت نہیں ہاری۔ وہ قابل فخر بیٹی تھی، وہ بہترین ماں تھی اور سب سے بڑھ کر وہ انتہائی شفیق انسان تھی، ایسے انسان جو کبھی کبھی ہی زمین پر اتارے جاتے ہیں۔ وہ بے حدمتنازع عورت تھی یا یوں کہہ لیں کہ اسے متنازع بنایا گیا۔

عاصمہ جہانگیر کی وفات جمہوریت پسندوں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے ۔عاصمہ جہانگیر نے جس طرح بغیر لگی لپٹی سیاسی و فوجی حکمرانوں، عدلیہ اور مذہبی بنیاد پرستی کو ہوا دینے والوں پر تنقید کے نشتر برسائے، وہ شاید ہی کوئی اور کبھی کر سکے۔

عاصمہ جہانگیر کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جس جرات و بہادری اور حق گوئی و بے باکی سے انہوں نے اپنی رائے کا ہمیشہ اظہار کیا، وہ قابل تحسین ہے ۔جمہوری نظام حکومت میں حکمران اشرافیہ کی ناقص پالیسیوں اور غیر جمہوری طرز عمل پر تنقید کا حق ہر شہری کو حاصل ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں آمروں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر بنا کسی تردد کے تنقید قریب قریب ناممکن ہے ۔مگر سلام ہے عاصمہ جہانگیر پر ،انہوں نے ہمیشہ آمروں اور ظالموں کے خلاف آواز اٹھائی ، بات کی تو کھل کر کی۔اس ملک میں جہاں عام آدمی تو درکنار، دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی اظہار رائے کے حق کو نظریے، سلامتی اور مذہب کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ،وہاںعاصمہ جہانگیر کا خاصہ یہی تھا کہ وہ نظریے، سلامتی اور مذہب کی ان زنجیروں کو کبھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے نہایت خوش اسلوبی سے اپنا موقف پیش کرتی رہیں۔

نڈر، باہمت اور بے باک خاتون عاصمہ جہانگیر کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز حاصل تھا اور ججز بحالی تحریک میں بھی وہ پیش پیش رہیں۔ قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کے لیے عاصمہ جہانگیر کا کردار ناقابل فراموش ہے۔عاصمہ جہانگیر کو 2010 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا جب کہ 1995 میں انہیں مارٹن انل ایوارڈ، ریمن میکسیسے ایوارڈ، 2002 میں لیو ایٹنگر ایوارڈ اور 2010 میں فور فریڈم ایوارڈ سے نوازا گیا۔

عاصمہ جہانگیر آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے مقدمے میں بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں اور آخری مرتبہ انہوں نے 9 فروری (اپنی وفات سے دو دن پہلے)کو عدالت کے روبرو پیش ہوکر دلائل دیے۔وہ محروم طبقے کے مقدمات بلامعاوضہ لڑتی تھیں۔ سب کے ساتھ چلیں ،کیونکہ اسے تنہا لڑنے کی عادت تھی

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: