صارفین کےحقوق کااستحصال آخر کب تک

کچھ دن پہلے میں ان ٹھگوں کی “ٹَھگّی” کا شکار ہو چکا ہوں۔ ہوا یوں کہ کسی  بنک میں میرا ایک کھاتہ کافی عرصہ پہلے موجود تھاجوعدم استعمال کی وجہ سے”غیر فعال” کر دیا گیااورایک دن کسی ضرورت کے تحت مجھے اُس کو بحال کروانے کی سوجھی۔ میں اس  بنک گیا،  اپنی درخواست پیش کی، جو کہ منظور ہوئی۔کاغذی کاروائی کے دوران میں نے عملے کو بتایا کہ میرا اے ٹی ایم کارڈ اس کھاتے کے ساتھ ماضی میں منسلک تھا اور عدم ضرورت کی وجہ سے میں نے اے ٹی ایم کارڈ کی سہولت منسوخ کروا دی تھی۔ اب جب کہ آپ کی عنایت کی وجہ سے وہ کھاتہ بحال کیا جا رہا ہےتو اس بات کی یقین دہانی کر لیجیئے گا کہ کہیں وہ “اے ٹی ایم کارڈ” کی سروس دوبارہ بحال نہ ہو جائے، کیونکہ مجھے اسکی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔  عملے کے فرد نے کہا کہ آپ بے فکر رہیں، اے ٹی ایم  سروس بحال نہ ہو گی، اور نہ ہی اس ضمن میں آپ کے کھاتے سے کوئی رقم بطور “سروس چارجز” مِنہا ہوگی اور میں نے  انکی یقین دہانی پر اپنے کھاتہ بحال کروالیا۔

کچھ دن بعد جب میں نے کسی ضرورت کے تحت اپنے کھاتے کے بقیہ بیلنس کی جانچ کی تواُس میں فرق پایا۔جب بینک والوں سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ کےکھاتےسے اے ٹی ایم کارڈ سروس چارجز کی مَد میں کٹوتی ہوئی ہے۔  یہ سننے کے بعد قدرتاً غصہ کی کیفیت طاری ہوئی اور متعلقہ افسر سے استفسار کرنے پر بتایا گیا کہ” یہ چارجز ہیڈ آفس والوں نے کاٹے ہیں اور آپ کا مسئلہ ہیڈآفس والے ہی حل کر سکتے ہیں”،یوں انہوں نے اپنا ملبہ کسی اور کے سر منتقل کر دیا۔

بعد میں جب ان کے ہیڈآفس میں اپنی شکایت درج کروائی تو پہلے انہوں نے یہ سب ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ میں یہ خدمات منسوخ کروا چُکا ہوں، پھر میرے احتجاج  کرنے اور سابقہ ریکارڈ چیک کروانے کا کہنے پر وہ مشروط طور پر میری بات مان گئےاوراب انہوں نے مجھے میری رقم واپس لوٹانے کے لئے اکیس دن کا وقت دیا ہےاور اس انتظار کے عرصہ میں اس  بنک مافیا کی عیار پالیسوں کا تجزیہ کر  رہا ہوں کہ جہاں صارف سے بلاوجہ وجواز رقم نچوڑنے میں یہ ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کرتےاوراگر کوئی عتاب کا شکار ان سے اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کر لے تو اسکو ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

صارفین کے ساتھ زیادتی کا  یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ابھی چند دن پہلے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کراچی اور حیدر آباد میں فروخت ہونے والے ڈبے کے دودھ کے لیبارٹری ٹیسٹ کی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی، عدالت میں پیش کی گئی رپورٹس میں اس بات انکشاف ہوا کہ اس دودھ کی تیاری میں مضرِ صحت کیمیکلز شامل کئے جاتے ہیں۔  بڑی بڑی کمپنیاں پھل کا جوس ظاہر کر کے کیمیکل ملے مشروب صرعام بیچتی پھر رہی ہیں اور پکڑےجانے کے با وجود صارف کے ساتھ بے ایمانی اور فراڈ کا سلسلہ جاری ہے۔

فن و حرفت کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ بچا ہو جہاں اس طرح کی  “ٹَھگّی” سے صارفین محفوظ  رہے ہوں۔  آج سے چند سال قبل موبائل کمپنیوں نے یہ روش اختیار کی تھی اور وہ مختلف اقسام کی “ویلیو ایڈڈ سروسز” صارف کی لاعلمی میں”ایکٹیویٹ” کر دیتے تھے۔  یہ وبا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں، بلکہ ہمسایہ ملک میں بھی پائی گئی۔جب صارفین نےاس نامناسب حق تلفی کےخلاف آوازاٹھائی تووہاں کی کمپنیوں نےایسے عوامل کے سدباب کا  لائحہ عمل ترتیب دیا۔  پاکستان میں یہ کمپنیاں “کالر رنگ بیک ٹیون” اور “ڈیلی الرٹ” کی طرح کی خدمات صارفین کے نمبر  پر چالو کر دیتی تھیں اورصارف کو اس وقت معلوم ہوتا جب اس کے موبائل بیلنس میں کٹوتی ہوتی۔ اس  طرح صارفین کو متوجہ کرنے کے لئے اشتہاری مہمات میں مبہم انداز میں خدمات کو پیش کیا جاتا رہا، جسکی وجہ سے یہ ادارے صارفین کی تنقید کا شکا ر رہے۔

اگرچہ ہمارے ملک میں ان اداروں اور ان کے کاروبار کی نگرانی کا نظام کسی حد تک موجود ہےلیکن پھر بھی عام آدمی کو، خصوصاً جب کہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی پسماندگی کی حد تک موجود ہے،اس نظام میں اپنےحقوق کے حصول کے لئے کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔  ضرورت اس امر کی ہےکہ بینکنگ محتسب اور پی ٹی اے تک عام آدمی کی رسائی کا کوئی سہل طریقہ کار وضع کیا جائے۔اس کی وجہ سے یہ ادارے صحیح طریقہ کار پر چلیں گےاورصحت بخش مقابلہ کی فضا کی وجہ سے صارفین کو بہترین سہولیات میسرآسکیں گی۔مزید براں عدالتی نظام میں اصلاحات کر کے عام آدمی تک انصاف کی بروقت اور مختصر عرصہ میں رسائی کی بھی ضرورت ہے۔، تاکہ صارفین کے ساتھ ساتھ کاروباری حلقہ  اور نگران اداروں کے  حقوق کا بھی تحفط ہو سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: