نامعلوم کی طرف

تحریر: ہارون الرشید
لطیفے کے اس سکھ جوان کی طرح‘ عالمی دوڑ کا جو چیمپئن تھا… اور نقب زن کا تعاقب کرتے‘ اس سے آگے نکل گیا، نتائج و عواقب سے بے نیاز، کیا ہم ایک نامعلوم منزل کی طرف بگٹٹ نہیں؟
جلد انتخابات استحکام کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تحریکِ انصاف مطالبہ کر چکی‘ اندر خانہ کی خبر رکھنے والے کہتے ہیں کہ نون لیگ اور عسکری قیادت بھی کسی قدر مائل ہیں۔ جو عظیم رکاوٹیں حائل ہیں‘ کس طرح دور کی جائیں؟ مردم شماری کا نازک سوال۔ پھر بعض کا یہ اندیشہ کہ ان حالات میں الیکشن آزادانہ اور غیر جانبدارانہ قطعی نہ ہوں گے۔ ان کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے گا۔ کوئی باقاعدہ تجویز نہیں مگر ناچیز یہ سوچتا ہے: حلقہ بندی اور سیٹوں میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کس صوبے کی کتنی نشستیں ہوں گی۔ کوئی فارمولا کیوں نہیں بن سکتا؟ عبوری طور پر مردم شماری کے موجودہ اعداد و شمار قبول کر کے سیٹیں تقسیم کر دی جائیں۔ معمولی ردّ و بدل ہی‘ بعد میں درکار ہو گا، جو آئندہ پہ چھوڑا جا سکتا ہے۔ کوئی زیادہ قابلِ عمل تجویز بھی سامنے آ سکتی ہے۔
جہاں تک آزادانہ الیکشن کے لیے ضمانتوں کا سوال ہے تو مختلف فریقوں کے درمیان بات چاہیے۔ سیاستدان گفتگو پہ آمادہ نہیں۔ عسکری قیادت اور حکمران پارٹی کے درمیان بہت بڑی خلیج حائل ہے۔ اسے پاٹنے کا خیال تو کسی کو نہیں‘ آگ پر تیل چھڑکنے والے بہت۔ اصول واضح ہے۔ کل اگر کسی نے دھاندلی کی تو اس کا علاج یہ نہیں کہ اسے دھاندلی کا ہدف بنا یا جائے۔ وہی بات کہ خون کو خون سے نہیں بلکہ پانی سے دھویا جاتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے ”نیکی برائیوں کو لے جاتی ہے‘‘۔ عدل ایسی چیز ہے کہ جو بدترین حالات میں بھی قرار پیدا کر دیتی ہے۔ دہراتے ہم بہت ہیں، غور کم کرتے ہیں کہ اعمال کے بہتر نتائج کا دار و مدارحسنِ نیت پہ ہوتا ہے۔
سیاسی پارٹیاں باہم بات نہیں کرتیں تو کچھ دوسرے کر سکتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی قابلِ اعتماد شخصیات‘ کچھ دوسرے اکابر بھی‘ سیاست سے جن کا تعلق نہیں۔ ان میں سے بعض غیر معمولی انتظامی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں‘ معرکے جنہوں نے سر کیے۔ دنیا بھر میں جن کا احترام ہے۔ ضرورت ہو اور اتفاقِ رائے ہو جائے تو الیکشن کمیشن میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ پھر سیاسی پارٹیاں‘ عسکری قیادت اور میڈیا اس کی پشت پر ڈٹ کر کھڑے ہوں۔ ایسے انتخابات ہو سکیں تو یہ ایک روزِ سعید ہو گا‘ جس کے بطن سے ان شاء اللہ خیر کی لہلہاتی فصل اٹھے گی۔
بعض اہم شخصیات سے بات کی ہے۔ ان میں سے ایک نے کہا ”اگر ہم مان جائیں تو کیا آپ انصاف کی ضمانت دیتے ہیں؟ عرض کیا: میں کیا اور میری ضمانت کیا۔ اصل چیز ہے اتفاقِ رائے اور پھر ایک متفقہ فارمولا۔ اگر یہ ہو سکے تو پھر یہ سوال اٹھے گا۔ ضمانت وہ ہوتی ہے‘ جس پر اندیشے میں مبتلا فریق کا اطمینان ہو۔ دے وہ سکتا ہے‘ جو قوت رکھتا ہو۔ فی الحال تو یہی کہ لیڈرانِ کرام سوچ بچار پر آمادہ ہوں۔ کچھ نام یہ عامی بھی تجویز کر سکتا ہے۔ ممکن ہے‘ دوسروں کے ذہن میں زیادہ بہتر شخصیات ہوں۔ اوّل ممتاز سیاسی رہنمائوں اور عسکری قیادت کی آمادگی لازم ہے۔ عسکری قیادت کی اس لیے کہ الیکشن کے انتظام و انصرام میں اس کا کردار بہت اہم ہو گا۔ وہی ضامن ہو سکتے ہیں۔ قوم کے سامنے عہد کر لیا تو وہ شرائط کی پاسداری کریں گے۔
صورتِ حال خطرناک ہے۔ دو اڑھائی ہزار افراد نے حکومت کو یرغمال بنا کر اپنی شرائط منوا لیں۔ مان لیا کہ ان کا مؤقف درست تھا مگر کیا طریقِ کار اور انداز یہ ہونا چاہیے تھا؟ جنرل قمر باجوہ سعودی عرب میں تھے‘ جب انہیں سمجھوتے کی اطلاع دی گئی۔ انہیں صدمہ پہنچا کہ دستاویزات پہ جنرلوں کے نام لکھے ہیں۔ بتایا گیا کہ یہ بھی شب بھر کی ریاضت کے بعد ممکن ہو سکا۔ مظاہرین تو حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پھر وہ چار وزیروں پہ ڈٹ گئے۔ زاہد حامد، انوشہ رحمن، احسن اقبال اور ایک وزیر۔ دھرنے کے آغاز میں مظاہرین آمادہ ہو گئے تھے کہ وزیرِ قانون زاہد حامد کو پندرہ دن کی رخصت پر بھیج دیا جائے۔ اس دوران تحقیقات ہوں اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ پھر تلخی بڑھتی گئی‘ مطالبات میں شدّت آتی گئی۔ عسکری قیادت کا مشورہ یہ تھا کہ آپریشن نہ کیا جائے۔ انتہائی نازک معاملے میں طاقت کے استعمال سے خدا نخواستہ لال مسجد ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہو جائے۔ تاخیر سے معاملہ بگڑا۔ نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی یا معمولی غصہ بھی اگر قائم رہے تو بتدریج غیر معمولی ہیجان میں ڈھل جاتا ہے۔ پھر آدمی اس کی گرفت میں ہوتا ہے‘ وہ آدمی کے قابو میں نہیں۔ ثانیاً اگر کوئی شخص اپنے مؤقف کو دہراتا رہے تو رفتہ رفتہ اس کا یقین گہرا ہوتا چلا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ ایک جنون یعنی Obsession کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ اسی کو سب سے بڑی سچائی سمجھنے لگتا ہے۔ یہاں تو معاملہ ختم نبوت کا تھا۔ حکومت کی حماقت یہ تھی کہ کسی ادنیٰ سبب کے بغیر اس نے پنڈورا باکس کھول دیا تھا۔
رانا ثناء اللہ کے ساتھ بات ہوئی۔ میرے تاثر کو انہوں نے یکسر غلط قرار دیا کہ ختم نبوت کے معاملے میں ایک ذرا سی ناروا بات بھی انہوں نے کہی تھی۔ پھر اپنے مؤقف کی انہوں نے وضاحت کی۔ سیاست الگ‘ وہ ایک دوسرا میدان ہے۔ عقیدے کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صاف الفاظ میں ایک چیز کا اقرار یا انکار کر دے تو اسے مان لینا چاہیے۔ کسی کی نیت پر ہم حکم نہیں لگا سکتے۔ جناب اسامہ بن زیدؓ نے میدانِ جنگ میں کلمہ پڑھنے والے کو قتل کر ڈالا۔ رسولِ اکرمؐ نے جواب طلبی فرمائی تو انہوں نے کہا: خوف سے اس نے ایمان کا اعلان کیا تھا۔ ارشاد کیا: کیا تم نے اس کے دل میں جھانک کے دیکھا تھا؟ پھر آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: یا اللہ، میں اسامہ کے اس فعل سے بری ہوں۔
رانا صاحب نے جو کچھ کہا‘ اس کا خلاصہ یہ ہے: ختمِ نبوت پہ میرا کامل ایمان ہے۔ قادیانیوں کی فاش غلطی ہے کہ غیر مسلم قرار دیئے جانے کے باوجود‘ وہ خود کو مسلمان قرار دینے پہ مصر ہیں۔ کہا کہ ان کے مؤقف کو درست تناظر میں دیکھا نہ گیا۔ قادیانیوں کے چینل سے انٹرویو سات سال پہلے کا ہے‘ جب لاہور میں ان کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا۔ اس موقع پر انہیں تحفظ کا احساس دلانے کے لیے دل جوئی کی ضرورت تھی۔ عقائد سے بحث تھی ہی نہیں۔ دوسری بار بھی اصل کوشش یہی تھی کہ ان کے حقوق محفوظ رکھنے کا اطمینان دلایا جائے۔ رانا صاحب معاملے کی علمی اور شرعی نوعیت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہ البتہ ہے کہ الفاظ کے انتخاب میں زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی۔ یہ ان سے عرض بھی کیا۔
معاملہ اب کیسے سلجھے؟ کوئی سلجھانے والا نہیں۔ مکالمے کا اہتمام کون کرے؟ معاملہ نازک اور فضا اندیشوں سے بھری ہے۔
حکومت کمزور ہے‘ اتنی کمزور کہ معیشت ڈوب رہی ہے‘ افسر اس کی نہیں سنتے۔ جہاں کہیں کچھ تھوڑی سی ترقی اور بہتری رونما ہوئی‘ وہ بدامنی اور بے یقینی کی زد میں ہے۔ عسکری قیادت‘ نون لیگ‘ پی ٹی آئی‘ پیپلز پارٹی یا دوسری پارٹیاں‘ سبھی شاکی، سبھی فریاد کناں ہیں۔ ایسے میں اگر بات چیت کا آغاز بھی نہ ہو تو افراتفری بڑھتی جائے گی۔ نوبت خدا نخواستہ انارکی تک پہنچ سکتی ہے۔ سب کے سب پھر خسارے میں رہیں گے… کہیں تو کوئی آغاز کرے۔ مسلسل آویزش تو تباہی کا راستہ ہے۔ 
لطیفے کے اس سکھ جوان کی طرح‘ عالمی دوڑ کا جو چیمپئن تھا… اور نقب زن کا تعاقب کرتے‘ اس سے آگے نکل گیا، نتائج و عواقب سے بے نیاز، کیا ہم ایک نامعلوم منزل کی طرف بگٹٹ نہیں؟
(یہ کالم سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پہلے لکھا گیا)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: