امتیا زگل سے صد معذرت کے ساتھ

yousaf minhas

یوسف منہاس

امتیا زگل کا شمار عقلیت پسندانہ اور مثبت سوچ رکھنےوالے تجزیہ کاروں میں ہوتا ہے ۔۔ جن کے گراں قدر تجزیے اخبارات میں تحسین کی نظروں سے پڑھے اور ٹی وی پر سنے جاتے ہیں ۔۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ جو کچھ لکھیں اور فرمائیں وہ حرف آخر ہو ۔۔۔ مورخہ 5 دسمبر بروز منگل روزنامہ دنیا کے صفحہ اول پر شائع بعنوان ” ووٹ بینک کی سیاست آخر کب تک” میں مدارس میں دی جانے والی تعلیم پر آپ کچھ یوں رقم طراز ہیں ۔۔
” دارالعلوم حقانیہ اور دیگر مدارس جس طرح کی تعلیم دیتے ہیں ، طلبہ کو قرون وسطیٰ کے دور کی فرسودہ سوچ سے باہر نہیں نکال سکتی۔ نہ ہی یہ نظام تعلیم طلبہ میں تنقیدی سوچ پیدا کر سکتا ہے ۔ اگر معاشرے کے پسماندہ طبقے کے بچے گلی سڑی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں تو یہ معاشرے کی اجتماعی ناکامی ہے ”
امتیاز گل کے وسیع تجربے کے سامنے راقم کی یہ تحریر طفل مکتب کی آڑی ترچھی تحریر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔۔ دارالعلوم حقانیہ کا بانی کون ہے ، اور کون اس کا انتظام وانصرام چلاتا ہے ۔۔ کوئی سرو کار نہیں ۔۔البتہ اپنے نام کی مناسبت سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ دینی مدرسہ ہے جہاں یقینا دینی تعلیم ہی دی جاتی ہو گی ۔۔۔
یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ مدارس میں قرآن مجید تجوید ، تفسیر اور اصول تفسیر ،علم حدیث اور اصول حدیث ،علم فقہ ،اصول فقہ ،علم عقائد (علم الکلام ) عربی ادب و شاعری عربی صرف و نحو ، منطق و فلسفہ اور دیگر دینی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے ۔۔ اور یہ ہی تعلیم دنیا میں دیگر علوم کا نہ صرف منبع و مخرج ہے۔۔ بلکہ یہیں سے دیگر مروجہ علوم کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔۔
آپ کا اشارہ” گلی سڑی تعلیم ” کس طرف ہے ۔۔ وضاحت طلب ہے ۔۔۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے ۔۔ اور ” ہم نے قرآن کو آسان کر دیا ہے کوئی سمجھنے والا” ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ۔۔” کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے”
یہاں ایک ذاتی تجربہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میری ایک عزیزہ جس نے اسلامیات میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا ۔۔ اس کو ایک ایک ایسی بچی نے ٹیوشن پڑھائی جس نے لاہور کے ایک دینی مدرسے سے درس نظامی کر رکھا تھا اور اس کی عصری تعلیم
صرف پرائمری تھی۔۔۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ کسی خاص ذہن ساز کی طر ف اشارہ کرتے تو بات سمجھنے میں آسانی ہو جاتی۔۔لیکن مدارس کے تعلیمی نظام کو ہدف تنقید بنانا قرین انصاف نہیں ۔۔ آپ نے خود معاشرے اور حکومت کی بے اعتنائی کا تذکرہ کر کے بلواسطہ طور پر یہ اعتراف کیا ہے کہ کون سے عوامل اس زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں ۔۔
ان حقائق کو تسلیم کرلینے میں بھی کوئی عا ر نہیں کہ عصر حاضر کی ترقی ،تعلیم و تحقیق کے مرہون منت ہے ۔۔۔ لیکن کیا ۔۔۔ انگلی کے پوروں پر دنیا کا سمٹ جانا ہی ترقی کی معراج ہے ۔۔۔ ترقی کا پیمانہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ کرہ ارض پر کہیں انسانی خون نہ بہتا لیکن “جس کی لاٹھی اس کی بھینس ” کا خطرہ آج بھی کمزور اقوام کے سروں پر منڈ لا رہا ہے ۔۔جس طرح یہ فارمولا اس وقت رائج تھا۔۔ جب انسان پتوں سے اپنا جسم ڈھانپتا اور غاروں میں رہتا تھا ۔۔۔ یہ کہہ لینے میں کوئی حرج نہیں کہ انسان نے عصر حاضر کی تعلیم کے سہارے صرف اتنی سی ترقی کی ہے کہ بلند و بالا عمارتوں میں بیٹھ کر کمزور ممالک کو تخت وتاراج کرو اور ان کی دولت لوٹ کر حصے بخرے کر لو ۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

مریم نواز کو سمیش کرنے کی دھمکی دینے والا میجر جنرل عرفان ملک سپر سیڈ

پاک فوج میں تین میجر جنرلز کو ترقی دے کر لیفٹننٹ جنرل بنا دیا گیا ...

%d bloggers like this: